زراعت کی بحالی

معاشی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ زرعی معیشت کی بحالی پر توجہ دی جائے۔ قرضوں پر انحصار کرنے کی بجائے اگر قومی وسائل میں سرمایہ کاری کی جائے تو اِس سے زیادہ بہتر اور فوری نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ زراعت کے بارے میں چند حقائق لائق توجہ ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کل آمدنی کا تقریباً ایک چوتھائی ہے اور یہی زرعی شعبہ 37 فیصد ملازمتوں کا ذریعہ بھی ہے۔ دوسری طرف، قومی آمدنی (جی ڈی پی) سے تقریباً سات فیصد سبسڈی دینے کے باوجود، زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت کم ہے اور یہ بہت سی نااہلیوں کا مجموعہ ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران، معاشی انتظام کے بارے میں حکومت کا نکتہئ نظر ایڈہاک رہا ہے، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ چاہے زراعت ہو، مینوفیکچرنگ ہو یا آئی ٹی، ہر شعبہ توجہ چاہتا ہے اور ہر شعبہ طویل مدتی ترقی کے بجائے قلیل مدت کے لئے جاری کردہ وسائل پر انحصار رہا ہے۔ اگرچہ قومی سطح پر زراعت سے متعلق قومی پالیسی بھی موجود ہے اور ہر سیاستدان اِس کے بارے میں بات بھی کرتا ہے لیکن ہمیں تاحال کوئی بامعنی پہلو نظر نہیں آ رہا جس سے زرعی ترقی و بحالی آشکار ہو۔مالی مشکلات کے باوجود، زراعت کے لئے براہ راست اور بالواسطہ سبسڈی کم نہیں ہے۔ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ پاکستان زرعی شعبے کو سالانہ تقریبا ڈھائی ارب ڈالر سبسڈی دے رہا ہے۔ اس کے باوجود، زراعت ترقی نہیں کر رہی تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ سبسڈی دینے کے طریقے پر نظرثانی (اصلاح) کی جائے۔ پاکستان کی زراعت کو لاحق خطرات و مشکلات میں سرفہرست ’پانی کی قلت‘ ہے۔ ملک کے ایسے حصے ہیں جہاں پانی کم ہے اور پانی کی کمی میں تیزی سے اضافہ الگ سے تشویشناک ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں فی کس پانی ایک ہزار مکعب میٹر سے بھی کم ہے۔ سال دوہزار اکیس میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اعدادوشمار جاری کئے تھے کہ پاکستان میں فی کس پانی کی فراہمی 1071 مکعب میٹر ہے جبکہ سال 2010ء میں یہ پندرہ سو معکب میٹر تھی اور سال 2024ء میں تخمینہ ہے کہ پانی مزید کم ہو کر 900 مکعب میٹر فی کس ہو گیا ہے۔ اگر پاکستان جلد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں کرتا تو آنے والے دنوں میں اِس کی زرعی پیداوار مزید کم ہو گی۔ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ پاکستان فی مکعب میٹر پانی میں سے صرف 130 گرام فصل پیدا ہوتی ہے۔ بہارت میں یہی شرح 300 گرام جبکہ چین میں 800 گرام ہے۔ آبپاشی کے فرسودہ طریقے اور متعلقہ حکومتی اداروں کی بے حسی کی وجہ سے قیمتی پانی ضائع ہو رہا ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو ٹیوب ویلوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے اور اِس انحصار کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے مطابق گندم اور چاول کی دو اہم فصلیں آبپاشی کے لئے دستیاب 110 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے 76.27 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال کرتی ہیں۔ ’بیڈ پلانٹنگ‘ کی طرف منتقلی، جس میں فصلیں پہاڑوں پر اگتی ہیں اور جس میں پانی کو تہہ در تہہ رکھا جاتا ہے سے پچاس فیصد پانی کی بچت ممکن ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی پڑی ہے جسے بروئے کار لانے کے لئے اقدامات ہونے چاہئے۔ حکومت کو فوری طور پر آبپاشی کے نظام کی اصلاح کرنی چاہئے۔ حکومتی توجہ کسانوں کی مدد سے ہٹا کر اس طرح کے پائیدار حل پر مرکوز کرنے سے زیادہ پیداوار کی صورت بہتر نتائج برآمد ہوں گے جس سے ٹیوب ویلوں پر انحصار کم ہوگا اور زراعت کے لئے دی جانے والی سبسڈی بھی بتدریج ہوتی چلی جائے گی۔آب و ہوا کی تبدیلی زراعت کے لئے بڑا خطرہ ہے جیسے جیسے بارش اور برف پگھلنے کے موسم بدل رہے ہیں، کسانوں کو نئے حالات کے مطابق ڈھلنا چاہئے۔ زرعی شعبے میں تحقیق کے لئے زیادہ سرمایہ کاری بھی یکساں اہم ہے۔ گرمی برداشت کرنے والی فصلوں کی اقسام تیار کرنے اور پودے لگانے کے موسم کو ایڈجسٹ کرنے سے کسانوں کو بدلتے حالات کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کو جی ایم او اور ہائبرڈ بیجوں کی محفوظ اقسام کو بھی فروغ دینا ہوگا۔ اس کے لئے بیج کی تقسیم میں کوالٹی کنٹرول کی ضرورت ہے۔ تحقیقی اداروں اور پی ایس کیو سی اے کے معیار کے نفاذ کے لئے پروٹوکول تیار اور نافذ کرنے چاہیئں۔زرعی مشینری کے زیادہ استعمال سے بھی زرعی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔ حکومت سروس فرمز قائم کرنے میں مدد کر سکتی ہے جن سے کسان جدید مشینری کرایہ پر لے سکتے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کو خاص طور پر اس سروس کی ضرورت ہے۔ ایک بار جب یہ کمپنیاں رسمی معیشت میں آ جائیں گی، تو بینک قرض دینے کے لئے تیار ہوں گے۔ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ چوبیس فیصد ہے۔ اس کے باؤجود مالی سال دوہزارتیئس میں زراعت کے لئے کل قرضوں کا 7.2 فیصد دیا گیا جبکہ زرعی شعبے کے ذمے واجب الادأ قرض چھ فیصد تھا۔مالی سال دوہزارچوبیس میں پاکستان نے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر مالیت کی زرعی اشیا درآمد کیں۔ اس نے 2.9 ارب ڈالر میں 3.0 ملین ٹن تیل اور ایک ارب ڈالر سے زائد کی ساڑھے تین ملین ٹن گندم درآمد کی۔ زرعی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کو گندم کے لئے اپنی حد سے زیادہ سبسڈی پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ پاکستان تیل دار پیداوار میں اضافے کے لئے چالیس سال سے کوشش کر رہا ہے تاہم اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ جامعات اس سلسلے میں تحقیق کر رہے ہیں جسے عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو خوراک کا بڑا برآمد کنندہ بننے کے لئے بہت سے قدرتی وسائل حاصل ہیں۔ پانی کے شعبے میں اصلاحات، تحقیق پر توجہ، زیادہ سرمایہ کاری اور کسانوں کے لئے قرضوں سے زرعی شعبے کی ترقی اور زرعی شعبے میں زیادہ ملازمتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ہمایوں اختر خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)