بلاول بھٹو کی پیشکش

عیدالفطر کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے ملک بھر میں ایک اور احتجاجی مہم کی تیاریوں کے درمیان وفاقی حکومت کی جانب سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ثالثی کی پیشکش قبول کرنے کا فیصلہ انتہائی ضروری سیاسی مکالمے کا باعث بن سکتا ہے۔ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی ذمہ داری سنبھالنے والے بلاول بھٹو نے خود کو حریف سیاسی دھڑوں کے درمیان پل کے طور پر پیش کیا ہے، جو سیاسی تناؤ کم کرنے اور تعاون کو فروغ دینے کا نادر موقع بن سکتا ہے تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا ’پی ٹی آئی‘ اس عمل میں شامل ہوگی بھی یا نہیں۔ پارٹی کی مذاکرات سے گریز اور مذاکرات کے بجائے سڑکوں پر احتجاج کو ترجیح دینے کی تاریخ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے منتخب کردہ جارحانہ راستے کے لئے اہم سکیورٹی بات چیت کو بھی ترک کیا جس پر اُسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ موقع ہے کہ تحریک انصاف اپنے مؤقف پر نظرثانی کرے۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے حکومت کی جانب سے اپنے زیر حراست چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی اجازت سے انکار کو اپنی غیر موجودگی کا جواز قرار دیا جبکہ سیاسی مبصرین تجویز کر رہے ہیں کہ تحریک کو قومی سلامتی کے اجلاس میں بہرصورت شرکت کرنی چاہئے تھی۔ اب بلاول بھٹو ثالثی کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں تو ’پی ٹی آئی‘ کو اہم انتخاب کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی اور حکومت کے ساتھ رابطے سے اسے مرکزی دھارے کے سیاسی مکالمے میں دوبارہ شامل ہونے اور اپنے مطالبات کو باضابطہ طور پر آگے بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے۔ اب تک سڑکوں پر احتجاج کی حکمت عملی کا کوئی خاص (ٹھوس) فائدہ نہیں ہوا اور عمران خان کی رہائی ممکن نہیں ہو سکی ہے جبکہ حالات سے عیاں ہے کہ اگر تحریک انصاف کی یہی حکمت عملی برقرار رہی تو ان کی فوری رہائی کا امکان نہیں ہے۔ اگر حکومت قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا اجلاس دوبارہ طلب کرتی ہے تو پی ٹی آئی کو بائیکاٹ جاری رکھنے کے بجائے اپنی شکایات اجاگر کرنے کے لئے اس پلیٹ فارم کو استعمال کرنے پر غور کرنا چاہئے۔ یہ صرف عوامی مظاہروں پر انحصار کرنے کے بجائے ادارہ جاتی ترتیب میں حکومت کے مؤقف کو چیلنج کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ پی ٹی آئی نے جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت حزب اختلاف کی اہم شخصیات کو بھی قومی سیاست سے الگ تھلگ کر دیا ہے‘ جن کی حمایت وسیع تر اپوزیشن اتحاد کی تشکیل میں اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ پارٹی نے مذاکرات کے لئے اکثر سخت شرائط رکھی ہیں، جن میں اپنے رہنماؤں کی رہائی شامل ہے، جس کی وجہ سے یہ عمل شروع ہونے سے پہلے ہی رک سکتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی موجودہ بحران سے مؤثر طریقے سے نمٹنا چاہتی ہے تو اسے اپنے نکتہئ نظر پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ اپنے آپ کو مزید الگ تھلگ کرنے کے بجائے اسے موجودہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بات چیت کرنی چاہئے اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا چاہئے۔ حکومت کرنے کی خواہش رکھنے والی سیاسی جماعتیں جمہوری عمل میں حصہ لئے بغیر مستقل اپوزیشن میں رہنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔دوسری طرف حکومت کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس سے قبل پی ٹی آئی رہنماؤں کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دینے میں ہچکچاہٹ نے عدم اعتماد کو ہوا دی ہے اور پی ٹی آئی کو پیچھے ہٹنے کا بہانہ فراہم کیا ہے۔ اگر حکومت بات چیت کو فروغ دینے میں سنجیدہ ہے تو اسے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مذاکرات مصنوعی (کاسمیٹک) نہ ہوں بلکہ یہ ٹھوس نتائج کے حامل ہوں اور اس میں پی ٹی آئی کے خدشات دور کرنا بھی شامل ہونا چاہئے۔ بھلے ہی فی الوقت تحریک کے تمام مطالبات تسلیم نہ کئے جائیں لیکن حکومت کو اس موقع کو جماعتی سیاست کے مفادات ایک طرف رکھتے ہوئے قومی اتحاد پر زور دینا چاہئے‘ خاص طور پر سلامتی اور حکمرانی کے معاملات میں سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے انتہائی اہم و ضروری ہے۔ بلاول بھٹو کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کا مستقبل کیا ہوگا اور اِس میں کامیابی کا انحصار کن امور پر ہے اِن باتوں کا بڑی حد تک انحصار پی ٹی آئی کی نیک نیتی سے مذاکرات میں شرکت اور آمادگی سے مشروط ہے جبکہ اِس کے لئے حکومت کی مذاکرات کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنے کے لئے بڑے دل کا مظاہرہ کرنے پر بھی ہے۔ اگر تحریک کا مؤقف سخت گیر رہتا ہے اور اس وہ قومی سلامتی جیسے اہم مسئلے سے متعلق اجلاس میں شامل ہونے سے ایک مرتبہ پھر انکار کرتی ہے تو اس سے تحریک کو فائدہ ہونے کی بجائے نقصان  کا اندیشہ زیادہ ہے۔ وقت ہے کہ تحریک اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے جو دوسروں کی نظروں میں جارحانہ ہے اور اِس میں (مبینہ طور پر) قومی سلامتی کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایڈیٹوریل بورڈ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)