بھارت نے 2جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت کی تھی کہ پاکستان کے لوگ ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوتے ہیں۔ اسکے جواب میں بھارت نے وعدہ کیا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کے تعین کا حق دیا جائیگا یعنی استصواب رائے کے ذریعے وہ خود فیصلہ کرینگے کہ آیا وہ بھارت کیساتھ یا پاکستان کیساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ اس عمل کیلئے بین الاقوامی سرپرستی کی بھی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ سلامتی کونسل نے 21 اپریل 1948ء کو قرارداد نمبر 47منظور کی‘ جس میں دونوں ممالک کو اس سلسلے میں خصوصی اقدامات کرنے کی ہدایات دی گئیں‘ پاکستان نے قبائلیوں اور غیر مقامی عناصر کو علاقہ چھوڑنے پر آمادہ کیا لیکن بعد میں بھارت نے استصواب رائے کرانے سے انکار کر دیا۔ اس طرح نہ صرف قرارداد 47 کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ بین الاقوامی برادری کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کا نقصان پاکستان کو اس وقت بھگتنا پڑا جب 1971ء میں بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد کی‘ جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا اور بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا‘ اسکے بعد 2جولائی 1972ء کو شملہ معاہدہ وجود میں آیا‘ جس میں دونوں ممالک نے تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا عہد کیا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو رہنما اصول تسلیم کیا لیکن 22اپریل 2025ء کو مقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد حملہ ہوا‘ جس میں 26 افراد مارے گئے‘ بھارت نے اس حملے کو پاکستان سے مذاکرات نہ کرنے کا جواز بنا لیا اور شملہ معاہدے کو مؤثر طور پر مسترد کر دیا۔ 7مئی کو بھارت نے پاکستانی شہریوں پر میزائل اور ڈرون حملے کئے حالانکہ کوئی عدالتی یا بین الاقوامی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ جیش یا لشکر طیبہ کی جانب سے کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی اور نہ ہی بھارت نے اقوام متحدہ‘ انٹرپول یا آئی سی جے سے رابطہ کیا‘ اسکے برعکس پاکستان نے ان تنظیموں پر پابندی عائد کی اور شفاف اقدامات کئے۔ بھارت کا جواب طاقت کا استعمال تھا‘ نہ کہ دلیل یا قانون اور صرف یہی نہیں بلکہ بھارت کی جانب سے بلوچستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جانے لگی جو اب بھی جاری ہے۔ بھارتی نیوی کا افسر کلبھوشن یادیو‘ جو بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ کیلئے کام کر رہا تھا‘ بلوچستان سے گرفتار ہوا‘ اس کیخلاف پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ بھارت نے آئی سی جے میں مقدمہ دائر کیا لیکن عدالت نے سزا ختم کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ مزید برآں‘ بھارت نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دہشت گردی کو ہوا دی۔ کینیڈا میں ہونے والی ہلاکتیں اور حسینہ واجد جیسے افراد کو پناہ دینا اسکی مثالیں ہیں‘ جن پر انسانیت کیخلاف جرائم کے الزامات ہیں‘ جوہری خطرے کی تاریخ بھی بھارت کے رویئے کو واضح کرتی ہے‘ مئی 1974ء میں پہلا ایٹمی تجربہ راجستھان کے پوکھران میں کیا گیا‘ جو پاکستان کی سرحد کے قریب تھا۔ 1988ء میں مزید پانچ دھماکے کئے گئے۔ اس وقت اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے۔ ان دھماکوں کا مقصد پاکستان پر دباؤ ڈالنا تھا‘ جس کے جواب میں پاکستان نے بھی چاغی میں ایٹمی تجربہ کیا لیکن بھارت کی سرحد سے دور‘ شہریوں کو خطرے میں ڈالے بغیر۔ بھارت کے بیانات میں تضاد ہے ایک طرف وہ مذاکرات کی بات کرتا ہے‘ دوسری طرف یک طرفہ کاروائیاں کر کے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اگر بھارت واقعی جوہری بلیک میلنگ برداشت نہیں کریگا‘ تو اسے خود بھی ایسے اقدامات سے باز رہنا ہوگا جو اشتعال انگیز ہوں اور جنگی ماحول پیدا کریں۔ حقائق مسخ کر کے دنیا کو گمراہ کرنے کی بھارتی کوشش جاری ہے لیکن پاکستان کا مؤقف شفاف اور اصولی ہے۔ دنیا کو دیکھنا چاہئے کہ بھارت نے کس طرح سلامتی کونسل کی قرارداد‘ شملہ معاہدہ اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی‘ جب ایک قوم سے حق خودارادیت چھین لیا جائے‘ جب وعدے ایفا نہ ہوں اور جب ایک فریق مسلسل طاقت کا استعمال کرے تو یہ استبداد بن جاتا ہے۔ پاکستان سچ کی طاقت سے جھوٹ کا مقابلہ کریگا کیونکہ آخرکار سچ ہی غالب آتا ہے۔ دنیا کو چاہئے کہ وہ اس بات کا ادراک کرے کہ کشمیر کے عوام آج بھی اپنی آزادی اور شناخت کیلئے ترس رہے ہیں‘ ان کیساتھ انصاف نہیں ہو رہا اور وہ انصاف کے منتظر ہیں۔ (مضمون نگار سابق چیف جسٹس آف پاکستان ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر قاضی فائز عیسیٰ۔ ترجمہ ابوالحسن امام)