نو منتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ شام کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ امریکہ کو اس مداخلت کی اس لئے بھی ضرورت نہیں کہ شام پہلے ہی سے اس بری طرح امریکہ کی اقتصادی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے کہ دمشق میں کسی بھی نئی حکومت کے لئے امریکہ کے تعاون کے بغیر قدم جمانا نہایت مشکل ہو گا۔ شام کے دارلخلافے دمشق سے اتوار کے روز سابقہ صدر بشار الاسد کے فرار اور باغی گروہوں کے قبضے کے بعد جس بے یقینی کی صورتحال نے جنم لیا ہے اسے مغربی ممالک نہایت انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔ شام سے ایران کی مکمل اور روس کی جزوی رخصتی کے بعد طاقت کا جو خلا نظر آتا ہے اس میں امریکہ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی میڈیا کے مطابق الیپو‘ ہما اور ہومز جیسے بڑے شہروں پر قبضے کے بعد عسکری تنظیم حیات تحریرالشام نے دمشق پر بھی قبضہ کر لیا ہے شام جن پر آشوب حالات میں گھرا ہوا ہے ان میں ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ تحریر الشام کے ساتھ کئی دوسرے باغی گروپ بھی اس اتحاد میں شامل ہیں جس نے گزشتہ چند دنوں میں برق رفتاری سے دمشق کی طرف پیش قدمی کر کے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اگر چہ کہ نظریاتی طور پر یہ تمام گروہ سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان میں بعض ایسی انتہا پسند سوچ رکھتے ہیں جو مغربی ممالک کو پسند نہیں۔ تحریر الشام کو امریکہ‘ یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے تیرہ برس پہلے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اس گروہ کے لیڈرابو محمد الجولانی جن کی عمر بیالیس برس ہے سعودی عرب میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ پہلے القاعدہ سے وابستہ رہے پھر انہوں نے 2013ء میں النصرہ فرنٹ بنا کر القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ وہ کئی برس تک عراق جنگ کے دوران جیل میں بھی رہے۔اب مغربی میڈیا انہیں ایک ماڈریٹ یا معتدل مزاج باغی لیڈر کے طور پر پیش کر رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ الجولانی سے معاملات طے کر سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اس نئے منظر نامے میں امریکہ کو سامنے آنے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں کہ اسکے اتحادی ترکی نے تحریر الشام کے جنگجوؤ ں کو ٹریننگ اور اسلحہ دیکر اس قابل بنایا کہ وہ شام پر قبضہ کر لیں۔ اب مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی اور تزویراتی طور پر ایک اہم ترین ملک پر بشارالاسد کے علاوی خاندان جو کہ شیعہ مسلک کا ایک حصہ ہے کے پچاس سال سے زیادہ حکمرانی کے خاتمے کے بعد ترکی ایک طاقتور فریق کے طور پر سامنے آیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں طاقت کے بدلتے ہوئے اس توازن میں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ترکی کو مکمل طور پر امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ترکی شام میں نئی حکومت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریگا۔ اس تناظر میں تحریر الشام کی نئی حکومت کو ایک طرف اپنے اتحاد میں شامل دوسرے باغی گروہوں کو اعتماد میں لینا ہو گا اور دوسری طرف ترکی کی وساطت سے امریکہ سے معاملات طے کرنے ہونگے۔
یہ معاملات یہی ہیں کہ ایک تو شام پر اقتصادی پابندیاں ختم کی جائیں تا کہ وہ مغربی ممالک سے لین دین کر سکے اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ شام کے شمال مشرق میں واقع ادلیب کے شہر کے آس پاس تیل اور گیس کی جن ریفائنریز پر کرد ملیشیا نے قبضہ کر رکھا ہے انہیں دمشق کی نئی حکومت کے حوالے کیا جائے۔ ترکی اور شام کے خلاف جہد و جہد کرنے والے کرد ملیشیا کو امریکہ کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں سی آئی اے نے سیرین ڈیموکریٹک فورسزکے نام سے ایک عسکری تنظیم بنائی تھی جس نے شام کی تیرہ سال پرانی خانہ جنگی میں بھر پور حصہ لیا تھا مگر ڈونلڈ ٹڑمپ نے جنوری 2017 میں صدارت سنبھالنے کے بعد شام سے امریکی افواج کو واپس بلا لیا تھا۔ اس وقت سے لیکر آج تک ترکی کی سرحد پر واقع شام کے اس شمال مشرقی حصے میں امریکہ کے صرف نو سو فوجی موجود ہیں جو کرد باغیوں کوجدید اسلحے کے استعمال کی ٹریننگ دیتے ہیں۔
موجودہ خانہ جنگی سے پہلے شام اقتصادی طور پر ایک مضبوط ملک تھا۔ ان دنوں صرف تیل کی پیداوار سے اسے 3.2 بلین ڈالر کی آمدنی ہوتی تھی۔ دنیا بھرمیں تیل اور گیس کی پیداوار اور آمدنی کا جائزہ لینے والے ادارے British Petroleum Statistical Review Of World Energyکے اعدادو شمار کے مطابق شام2008 میں چار لاکھ بیرل یومیہ سے زیادہ تیل پیدا کرتا تھا۔ اسوقت تیل کی یہ پیداوار سعودی عرب‘عراق اور ایران کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ تیل کے یہ ذخائرزیادہ تر شام کی مشرقی سرحد پر واقع دیرلزور میں تھے۔ یہ شہر عراق کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں کرد ملیشیا امریکہ کی مدد سے خاصی فعال ہے۔ شام کی خانہ جنگی سے پہلے یہ علاقہ شامی افواج کے مکمل کنٹرول میں تھا مگر سول وار کی و جہ سے جوں جوں بشارلاسد کی حکومت کمزور ہوتی گئی تیل کے یہ ذخائر کرد ملیشیا کے قبضے میں جاتے رہے۔ شام کی ترقی اور خوشحالی کے ضامن تیل کے یہ ذخائر وہ ٹرمپ کارڈ ہے جو نو منتخب امریکی صدرکے ہاتھ میں ہے۔ اب اگر یہ بیش بہا دولت تحریر الشام کی حکومت کو واپس ملتی ہے تو وہ نہ صرف اپنے قدم جما سکے گی بلکہ شام کو خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن بھی کر سکے گی۔ بصورت دیگرمفلوک الحال شام ایک نئی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جائیگا۔
ایران کی مالی اور عسکری امداد کے بغیر حزب اللہ کے لئے اب اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔ ایران کی حز ب اللہ کو تمام امداد شام کے راستے جاتی تھی۔ اب یہ راہیں مسدود ہو گئی ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کواور نقصان حماس کو ہوا ہے۔ اسرائیل نے لبنان اور شام سے تو ایران کو نکال دیا ہے مگر اب اسے یہ دیکھنا ہے کہ محمد ابو الجولانی‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور طیب اردوان سے کیا ڈیل بناتے ہیں۔ ان معاملات کو طے ہونے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ شام کے مخدوش معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شام اور امریکہ کی کسی بھی نئی ڈیل میں ٹرمپ کارڈ کو کلیدی اہمیت حاصل ہو گی۔