قانون بادشاہ ہے

جب کسی جمہوری ملک کا چیف ایگزیکٹیو ماورائے آئین اقدام کرتا ہے(ا قدام کا مطلب ہے آگے بڑھنا‘ پیش قدمی کرنا‘ حرکت میں آنا۔ لغت کے مطابق اقدام کیا جاتا ہے اٹھایا نہیں جاتا)تو اس پر عوامی رد عمل جلد ہی سامنے آ جاتا ہے۔ میڈیا قانونی ماہرین کی مدد سے اس اقدام کے غیر آئینی پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس تنقید کے باؤجود حکومت اگر یہ اقدام واپس نہیں لیتی تو بات عدالت تک جا پہنچتی ہے۔ عدالت اس اقدام کی توثیق یا تنسیخ کا اختیار رکھتی ہے۔ اس مقدمے کا کوئی بھی فریق عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرسکتا ہے۔ اپیل میں ناکامی کے بعد عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا آپشن بھی ہوتا ہے۔ حکومت اگر عدالت کی حکم عدولی کرتے ہوئے اپنے فیصلے پر قائم رہے تو یہ تنازعہ ایک آئینی بحران کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ 
گذشتہ ہفتے ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی ضلعی عدالت کے چیف جج James Boasberg نے دو جہازوں کی روانگی کو روکنے کا حکم دیا۔ ان میں امریکہ میں کاغذات کے بغیر رہنے والے وینز ویلا کے دو سو باشندوں کو Immigration and Customs Enforcement کے حکم کے مطابق ایل سلوا ڈور بھیجا جا رہا تھا۔ جج جیمز بوس برگ نے کہا کہ ان تارکین وطن کو Due Process کی قانونی سہولت مہیا کیے بغیر ڈیپورٹ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی آئین کے مطابق اس سرزمین پر رہنے والے کسی بھی شخص کو اسکی زندگی‘ آزادی اور جائیداد سے قانونی تقاضوں کو پورا کئے بغیر محروم نہیں کیا جا سکتا۔ جج بوس برگ کے اس فیصلے کے باوجودان افراد کو ایل سلواڈور بھیج دیا گیا جہاں انہیں لاطینی امریکہ کی رسوائے زمانہ CECOT Mega Prison میں خطرناک ترین مجرموں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ ا س جیل میں اسوقت بیس ہزار کے لگ بھگ قیدی ہیں۔ یہاں ایک بیرک میں 80 قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ ان بیرکوں میں سونے کے لیے دھات یا لوہے کے بستر ہوتے ہیں جن پر کوئی میٹرس‘ چادر یا تکیہ نہیں ہوتا۔ امریکی اخبارات میں ان بیرکوں کی تصاویر دیکھ کر خوف آتا ہے۔ جج بوس برگ نے اپنے حکم کی خلاف
 ورزی کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسکے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا  James Boasberg is a radical left lunatic of a judge, a troublemaker and agitator.  صدر ٹرمپ نے جج بوس برگ کے مؤاخذے (Impeachment) کا مطالبہ بھی کیاہے۔ اس بیان کے چند گھنٹوں کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے کہا ”یہ حقیقت دو سو برسوں سے مستند تسلیم کی جا رہی ہے کہ مواخذہ عدالتی فیصلوں سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے لیے ایک مناسب لائحہ عمل نہیں ہے۔“  چیف جسٹس کے اس بیان کو نظر انداز کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اگلے روز اپنے ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر لکھا ”اگر صدر کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قاتلوں اور مجرموں کو ملک سے باہر بھیج سکے‘کیونکہ ایک مخبوط الحواس جج صدر کا کردارادا کرناچاہتا ہے‘ تو پھر ہمارا ملک ایک بہت بڑی مشکل میں ہے۔ اس صورت میں ناکامی اسکا مقدر ہے۔“ اس کے جواب میں ایک سابق جج اور نیو یارک تائمز کے تجزیہ نگار Michael Luttig نے چوبیس مارچ کے مضمون میں لکھا ہے” کوئی بھی قاتلوں ا ور مجرموں کو اس ملک میں نہیں رکھنا چاہتامگر انہیں نکالنے کے لیے صدر کو پہلے آئین پر عمل کرنا ہو گا۔ جج بوس برگ صدر کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے بلکہ صدر جج کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔“ صدر ٹرمپ اور عدلیہ کے درمیان تصادم نے اس بحث کو جنم دیا ہے کہ کسی جمہوری ملک میں Sovereign یا اعلیٰ ترین مقتدر کون ہوتا ہے۔ ممتاز کالم نگار Jamelle Bouie نے لکھا ہے کہ ”امریکہ کی سیاسی 
روایت میں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ حکومتیں قادر مطلق نہیں ہوتیں‘ انکے پاس محدود اختیارات ہوتے ہیں۔کالم نگار کی رائے میں اعلیٰ ترین اختیارات (Sovereignity) کا مطلب ریاست پر مکمل کنٹرول ہے جو امریکی آئین کے مطابق کسی حکومت کو حاصل نہیں ہے۔ Government is the instrument of Sovereignity یعنی حکومت تو اعلیٰ ترین اختیارات کی آلہ کار ہوتی ہے۔ Jamelle Bouie نے لکھا ہے کہ شہنشاہیت یا آمریت میں اعلیٰ ترین اختیارات شہنشاہ یا آمر مطلق کے پاس ہوتے ہیں جو ریاست کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہے۔ اسکے برعکس امریکہ کے آئینی نظام کے مطابق صرف عوام اعلیٰ ترین مقتدر ہوتے ہیں۔ عوام اپنے اس اختیار کو بعض قوانین اور اصول و ضوابط کی صورت میں آئین میں ڈھال دیتے ہیں۔ آئین تمام ریاستی اداروں کو اپنی مرضی کا پابند رکھنے کا اختیار رکھتا ہے۔ کالم نگار نے لکھا ہے کہ حکومت کا 1798 کے Alien Enemies Act کے تحت تارکین وطن کو Due Process یا واجب عمل کی سہولتیں دئیے بغیر ڈی پورٹ کرنا ما ورائے آئین اقدام ہے۔ اسی طرح ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ اور یو ایس ایڈ جیسے ادارے جو کانگرس نے تخلیق کئے ہیں کو صدر امریکہ تحلیل کرنیکا اختیار نہیں رکھتے۔ کالم نگار نے لکھا ہے کہ امریکی آئین کے مطابق ریاست کے کسی ایک ادارے کو دوسرے پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا اختیار نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ عوام پر اپنی مرضی مسلط کر سکتا ہے۔ Jamelle Bouie نے سیاسی مفکر Thomas Paineکے اس قول کا حوالہ دیا ہے۔In America the Law is King. For as in absolute governments the king is law.  یعنی امریکہ میں قانون بادشاہ ہے۔ جس طرح مطلق العنان حکومتوں میں بادشاہ قانون ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کو ابھی صرف ڈھائی مہینے ہوئے ہیں۔ انکی کامیابی کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ وہ عدالت سے مفاہمت کرتے ہیں یا مخاصمت کی پالیسی جاری رکھتے ہیں۔