پانی کی قلت: زرعی معیشت و معاشرت خطرے میں

پاکستان میں آبی تحفظ و ترقی سے متعلق ”گورننس سسٹم“ نوآبادیاتی دور کی یادگار ہے جس میں پانی سے متعلق امور کا نظم و نسق اُور انتظام سے جڑے مسائل انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کر چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ اصلاحات بھی نہیں ہو سکیں جس کے باعث دریاؤں پر انحصار کرنے والا یہ نظام آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بدتر شکل و صورت اختیار کر چکا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا آبی مستقبل جن متعدد مسائل و مشکلات میں گھرا ہے اُس میں سرفہرست ناکافی گورننس ہے۔ فیصلہ سازوں کے پاس درست اعداد و شمار اُور معلومات نہیں لیکن وہ ناکافی معلومات کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں اُور پانی جیسی نازک و اہم جنس کا انتظام و انصرام سرسری انداز میں کیا جا رہا ہے۔ وسائل کی منصوبہ بندی اور وسائل کی تقسیم پر مبنی طرزحکمرانی اُور فیصلہ سازی میں پانی جیسے قیمتی وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے جسے روکنے کے لئے برطانوی امدادی ادارے کی مالی مدد سے ایک غیرسرکاری تنظیم ”انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ (ایمی IWMI)“ حکومتی محکموں کو مشاورت اُور تکنیکی مدد فراہم کر رہی ہے کیونکہ پانی پاکستان کی بقا کے لئے ضروری ہے اُور پاکستان کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے پانی کے تحفظ سمیت کئی اہم مسائل حل طلب ہیں۔
ایمی پاکستان نے پنجاب کے 2 اضلاع سے کام شروع کیا اُور رواں برس اُنہی خطوط پر خیبرپختونخوا کے 2 اضلاع میں بھی پانی کے انتظام و تحفظ اُور وسائل کی ترقی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اُور اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ذریعے آگاہی پھیلانا وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اٹھائیس دسمبر دوہزارچوبیس کے روز ’سرینا ہوٹل پشاور‘ میں صحافیوں کو ملک میں پانی کے بندوبست اُور بالخصوص خیبرپختونخوا کے حوالے سے صورتحال سے آگاہ کیا۔ نشست سے وفاقی وزارت برائے آبی وسائل کے ذیلی اِدارے ’پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسیز‘ کے سابق سربراہ اُور ایمی پاکستان سے بطور ’سائنس اینڈ پالیسی ایڈوائز‘ وابستہ ڈاکٹر محمد اشرف نے پاکستان میں دستیاب پانی کی صورتحال اُور درپیش مشکلات (چیلنجز) کو اُجاگر کرتے ہوئے مسئلے کے کئی نازک و گھمبیر پہلوؤں کا احاطہ کیا اُور پانی کی اہمیت کے احساس‘ تحفظ کی ضرورت‘ پانی کے دانشمندانہ استعمال نیز آبی ذخائر اُور وسائل کی کماحقہ ترقی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ …… پاکستان کا شمار اُن خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاس ”دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام‘ ہے تاہم یہ نظام پانی کی کمی (قلت) کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے اُور اگر اِسے خاطرخواہ اہمیت (ترجیح) نہ دی گئی تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب خشک سالی کے سبب پاکستان میں غذائی عدم تحفظ خطرے کی آخری حد بھی عبور کر جائے۔ ایک ایسی صورتحال جب مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح کو بھی عبور کر چکی ہے اُور بنیادی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں زراعت کی وجہ سے کسی حد تک اعتدال پر ہیں۔ زراعت ہی روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بھی ہے تو پانی کی کمی (قلت) غربت و پسماندگی کی شرح میں لامحالہ اضافے کا باعث بھی بنے گی۔ توجہ طلب ہے کہ ’18 اکتوبر 2024ء‘ کے روز ’عالمی بینک‘ نے پاکستان سے متعلق (مائکرو پاورٹی آؤٹ لک فار پاکستان) رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ ”پاکستان کی 40 فیصد آبادی غریب ہے اُور اگر روزگار کے مواقعوں اُور حسب مہنگائی آمدنی کے وسائل میں اضافہ نہ کیا گیا تو سال 2026ء تک پاکستان میں غربت کی شرح برقرار رہے گی۔“ 
پاکستان میں آبپاشی کا نظام مجموعی طور پر ”17 ملین (ایک کروڑ ستر لاکھ) ہیکٹر“ زرعی اراضی کو پانی فراہم کر رہا ہے۔ ایک ہیکٹر تقریباً ڈھائی ایکڑ (یعنی ایک سو ساٹھ مرلے) کے مساوی ہوتا ہے۔ آبپاشی کا یہ نظام کتنا بڑا ہے اِس بات کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر بہت سے ممالک کا کل رقبہ جمع کر لیا جائے تو پاکستان کی آبپاشی کا نظام اُس سے بھی زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے لیکن آبپاشی کے اِس نظام پر دباؤ کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا 74 فیصد پانی ہمسایہ ممالک (بھارت‘ چین‘ افغانستان اُور ایران) سے آتا ہے چونکہ آبپاشی کا نظام بڑا ہے اُور ملک کی 70فیصد معیشت و معاشرت کا انحصار زراعت پر ہے  اِس لئے دنیا کی 10 بڑی فصلوں میں سے کئی ایک ایسی ہیں  جن میں پاکستان کا شمار زرعی پیداوار کے لحاظ دس سرفہرست (ٹاپ ٹین) ممالک میں ہوتا ہے۔ کپاس‘ گنا‘ چاول اُور گندم کے علاؤہ بھی کئی فصلیں ہیں‘ جو پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے‘ جیسے جیسے صنعتیں پھیل رہی ہیں اُور جیسے جیسے زراعت کے نت نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں تو پاکستان کے پاس دستیاب پانی کے ذخیرے پر دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ 1950ء میں پاکستان میں دستیاب فی کس پانی 5 ہزار کیوبک میٹر تھا جو وقت کے ساتھ کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر فی کس رہ گیا ہے اُور عالمی پیمانہ یہ ہے کہ جب کسی ملک میں فی کس دستیاب پانی کی مقدار ’ایک ہزار کیوبک میٹر فی کس‘ یا اِس سے کم ہو جاتی ہے تو اُسے ”پانی کی قلت (کمی) کا شکار“ ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔ کسی ملک میں دستیاب پانی کی مقدار و معیار کو جانچنے کے لئے 22 اشاریئے (انڈیکیٹرز) واضع کئے گئے ہیں جن سے متعلق سال 2016ء میں ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ …… ”اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو 22 اشارئیوں میں سے 5 بنیادی انڈیکیٹرز ایسے ہیں جن کی روشنی میں پاکستان سال 2025ء تک اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جہاں پانی کی کمی ہے۔“ ظاہر ہے کہ اِن اعدادوشمار کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ کاشتکار سرگرمیوں اُور پیداوار میں کمی کی صورت زرعی معیشت و معاشرت پر دباؤ مزید بڑھے گا۔ اِس منظرنامے کا ایک پہلو یہ بھی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ”پاکستان میں 2025ء کے پانی کی قلت اِس حد تک بڑھ جائے گی کہ اِس کے کئی حصے خشک سالی کا شکار ہونے لگیں گے۔“ اِس صورتحال کا پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت (سپرئم کورٹ آف پاکستان) نے ’ازخودنوٹس‘ لیا جبکہ ”وزیراعظم ڈیم فنڈ“ بنایا گیا جس عوام اُور حکومتی اداروں کی جانب سے گیارہ ارب روپے سے زیادہ عطیات جمع ہوئے جبکہ اِن عطیات پر چھ ارب روپے سے زیادہ سود وصول ہوا۔ ”پاکستان سے پانی ختم ہو رہا ہے“ اِس حوالے سے تشویش اُور تنقید و اصلاح کے مشوروں پر مبنی شورشرابے کی وجہ سے اُسی سال (24 اپریل 2018ء سے) وفاقی حکومت کی جانب سے ”نیشنل واٹر پالیسی“ وضع‘ منظور اُور لاگو کی گئی تاہم تاحال ایسے ٹھوس عملی اقدامات نہیں کئے جا سکے ہیں کہ جن کی بدولت پاکستان کو درپیش پانی کی کمی (قلت) دور ہو سکے اُور صورتحال کو مثالی قرار دیا جا سکے۔ ’قومی واٹر پالیسی‘ سے متعلق تفصیلات منسٹری آف واٹر ریسورسز کی ویب سائٹ (mowr.gov.pk) پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں جبکہ یہ پالیسی دستاویز فیڈرل فلڈ کمیشن کی ویب سائٹ (ffc.gov.pk) سے بھی بلاقیمت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کی جا سکتی ہے۔
پانی کی کمی (قلت) کے بعد پاکستان کو درپیش دوسرا بڑا مسئلہ ’موسمیاتی تبدیلی (کلائمنٹ چینج)‘ کی ہے جس کی وجہ سے خشک موسم زیادہ خشک اُور تر موسم زیادہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کسی وقت ہمارے پاس دستیاب پانی انتہائی (خطرناک حد تک) کم ہو جاتا ہے اُور کبھی یہ پانی ہمارے ذخیرہ اُور استفادہ کرنے کی صلاحیت سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال خاصے سنگین نتائج پیدا کر رہی ہے جیسا کہ 2010ء‘ 2012ء‘ 2014ء اُور 2022ء کے سیلاب دیکھے گئے لیکن چند ہی ہفتوں بعد انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) رپورٹ کرتی ہے کہ ملک کے مختلف ڈیمز اُور آبی ذخائر میں موجود پانی اختتام کے قریب (ڈیڈ لیول) پر پہنچ گیا ہے۔ مشکل یہ درپیش ہے کہ پانی اُس وقت میں دستیاب ہوتا ہے جب اِس کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی اُور موسمیاتی توازن بگڑنے کی وجہ سے پانی کی دستیابی معمول کے مطابق نہیں رہی۔ کاشتکاری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ’ربیع‘ اُور ’خریف‘ کے آغاز پر پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ یہ وہ اوقات ہیں کہ پانی وافر مقدار میں آبپاشی کے لئے دستیاب ہونا چاہئے۔

پاکستان میں پانی کے موجود وسائل پر تیسرا دباؤ آبادی کا ہے جو تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان ایشائی خطے میں چوتھا بڑا جبکہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اُور سال  2024ء کے اختتام پر پاکستان کی آبادی 25کروڑ  12 لاکھ 70 ہزار (251.27ملین) سے تجاوز کر چکی ہے۔ چین‘ بھارت اُور امریکہ کے بعد پاکستان دنیا کا ایسا چوتھا ملک ہے جس کے پاس (مقدار کے لحاظ سے) زیرزمین پانی کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جس میں سے 60فیصد پانی زرعی مقاصد کے لئے لیا جاتا ہے جبکہ پینے کے لئے 90فیصد پانی کا انحصار زیرزمین ذخائر پر ہے لیکن صرف یہی نہیں بلکہ صنعتوں کی ضروریات کے لئے 100فیصد پانی زیرزمین ذخائر سے حاصل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ’گراؤنڈ واٹر‘ پر حد سے زیادہ انحصار اُور دباؤ ہے اُور یہی وجہ ہے کہ زیرزمین پانی کی سطح ہر دن پہلے سے کم ہو رہی ہے۔ اِس سلسلے میں اعدادوشمار خاصے ”خوفناک“ ہیں کہ اِسلام آباد میں ہر سال ایک میٹر‘ لاہور میں آدھا میٹر‘ کوئٹہ میں چھ میٹر اُور پشاور کے حیات آباد میں ہر سال زیرزمین پانی کی سطح ’آدھا میٹر‘ کم ہو رہی ہے!  پاکستان کے پاس پانی موجود ہے۔ قدرت کی جانب سے بارشیں بھی مل رہی ہیں لیکن چونکہ ہمارے ہاں آبادی کا پھیلاؤ ’منصوبہ بندی‘ کے تحت نہیں ہو رہا اِس لئے پانی کے تحفظ‘ استعمال اُور فراہمی کی صورتحال مثالی نہیں رہی اُور زیرزمین پانی کی سطح ہر سال پہلے سے کم ہو رہی ہے۔
پانی کے وسائل پر چوتھا دباؤ ’ضیاع‘ کا ہے اُور یہ کافی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ آبپاشی کے لئے فراہم کیا جانے والا پانی نہر سے کھیت تک پہنچنے کے دوران ”60 فیصد“ ہو رہا ہے اُور اِس پر غضب یہ بھی ہے کہ فصلیں پانی کی دستیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے کاشت نہیں ہو رہیں۔ غیرموزوں علاقوں میں فصلوں کی کاشت سے پانی کی دستیابی یا تو ممکن نہیں ہوتی یا پھر وہ ضائع ہو جاتی ہے۔ گنا اُور چاول کی فصلیں ایسی جگہوں پر کاشت کی جانے لگی ہیں جہاں کے لئے وہ موزوں نہیں ہیں جیسا کہ جنوبی پنجاب میں ’گنا (شوگر کین)‘ لگایا جا رہا ہے جہاں پہلے ہی پانی کی کمی ہے اُور گنے کی فصل کو زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ زراعت اُور بالخصوص آبی وسائل و ذخائر سے متعلق فیصلے اُور قومی ترجیحات کا تعین ’سیاسی بنیادوں پر‘ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر کسی علاقے میں زیادہ پانی کی ضرورت والی فصل لگائی جائے گی اُور وہاں پانی دستیاب نہیں ہوگا تو زیرزمین پانی کے ذخیرے سے استفادہ کیا جائے گا۔ زیرزمین پانی میں معدنیات (نمکیات کی مقدار) زیادہ ہوتی ہیں جو فصلوں کے لئے نہری پانی کے مقابلے موزوں نہیں ہوتیں اُور اُن سے پیدا کی جانے والی فصلیں بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔ ’پانی سے متعلق مذکورہ  4مسائل‘ کے حل کے لئے قومی و صوبائی سطح پر حکمت ِعملیاں وضع کی گئی ہیں جن میں وفاقی حکومت نے سال 2018ء ’نیشنل واٹر پالیسی‘ بنائی۔ خیبرپختونخوا اُور پنجاب نے بھی 2018ء ہی میں ’واٹر پالیسیوں‘ کا اعلان کیا۔ قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا نے نیشنل واٹر پالیسی کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ’اِنٹیگریٹیڈ واٹر ریسورس مینجمنٹ اسٹریٹجی‘ وضع کی۔ (49 صفحات پر مشتمل اِس حکمت عملی کو irrigation.gkp.pk کی ویب سائٹ سے حاصل (ڈاؤن لوڈ) کیا جا سکتا ہے۔) پالیسیاں منظور ہونے کے بعد سال 2020ء سے ’ایکٹ‘ بنانے کا عمل شروع ہو جس کے تحت بعدازاں اتھارٹیز بنائی گئیں۔ اِن سبھی کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ زمین کی سطح پر اُور زیرزمین موجود دستیاب پانی کا تحفظ کیا جائے۔ پانی کا دانستہ اُور غیردانستہ طور پر ہونے والا ضیاع روکا جائے۔ پانی کی بوند بوند کا دانشمندانہ استعمال کیا جائے۔ پانی کو صرف آج ہی کی نہیں بلکہ کل (مستقبل) کی ضروریات کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے لیکن جب اتھارٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا اُور ایسا چونکہ پہلی مرتبہ ہو رہا تھا اِس لئے اتھارٹیز کے سربراہوں کو علم ہی نہیں تھا کہ اُنہوں نے کیا کرنا ہے یا کہاں سے اصلاحات کا کام شروع کرنا ہے۔ اِس مقصد کے لئے آلات کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ کسی تیزرفتار گاڑی کی حد رفتار معلوم کرنے کے لئے آلے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ صوبوں کو درپیش مشکل یہ تھی کہ وہ کیسے برسر زمین اُور زیرزمین پانی کی موجود مقدار پر نظر رکھیں اُور اِس بات پر بھی نظر رکھیں کہ کونسی فصل کہاں کاشت ہونی چاہئے کیونکہ پانی کے تحفظ اُور استعمال سے متعلق قوانین و قواعد پر عمل درآمد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ فصلیں اُن کے موزوں مقامات پر ہی کاشت ہونی چاہیئں۔ ہر فصل ہر جگہ پر نہیں لگ سکتی کیونکہ اُس کی زرخیزی‘ موسم اُور پانی کی دستیابی وغیرہ جیسے محرکات پیش نظر رکھے جانے ضروری ہیں اُور یہیں سے ’انٹیگریٹید واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیویشن (ایمی) پاکستان‘ نامی غیرسرکاری ادارے کا کام اُور کردار شروع ہوتا ہے جو برطانیہ کی عالمی امداد ’یو کے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ‘ کے مالی تعاون سے وفاقی اُور صوبائی حکومتوں کی مدد کر رہی ہے۔ مشکل کو آسان بنانے کے لئے لائحہ عمل وضع کیا گیا جس میں مسائل اُور اُن کے حل کی تراکیب و تدابیر شامل تھیں کہ ……  کون سی فصل کہاں لگائی جائے؟ گراؤنڈ واٹر کو کیسے مینج کیا جائے؟ کون سے آلات (ٹولز) استعمال ہونے چاہیئں جس سے قومی و صوبائی سطح پر فیصلہ سازوں کو ایسی تکنیکی مدد فراہم کی جا سکے جسے مدنظر رکھتے ہوئے وہ حسب حال‘ مؤثر و پائیدار فیصلہ سازی کر سکیں۔
نہری یا زیرزمین پانی کے تحفظ کو یقینی اُور ممکن بنانے کے لئے آلات کا استعمال انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ مثال کے طور پر یہ قانون تو بنا دیا گیا کہ کسی آبی ذریعے یا زیرزمین پانی کے ذخیرے کا استحصال نہ کیا جائے لیکن ایسے آلات موجود ہونے چاہیئں جن کے ذریعے ثابت کیا جا سکے کہ پانی کا استحصال ہو رہا ہے۔ اِسی طرح کونسی فصل کہاں لگنی چاہئے اُور کہاں کہاں خلاف ورزی ہوئی ہے اِس کا علم بھی آلات اُور خلائی سیاروں سے حاصل کردہ تصاویر سے ممکن ہے۔ ’ایمی پاکستان‘ نے تکنیکی امداد فراہم کرنے کے لئے پنجاب سے کام کا آغاز کیا اُور ’گراؤنڈ لیول واٹر مینجمنٹ سسٹم‘ بنانے کے علاؤہ خشک سالی سے متعلق پیشگوئی اُور موسمیاتی صورتحال پر نظر رکھنے والے آلات یا اِس حوالے سے تکنیکی مدد فراہم کی گئی۔ ایگری گیشن ڈیمانڈ مینجمنٹ سسٹم بنایا گیا جس میں اِس بات کا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس فصل کو کتنا پانی دینا ہے اُور کب دینا ہے؟ پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا کے فیصلہ سازوں کی رہنمائی کا فیصلہ کیا گیا اُور ’یکم جولائی دوہزارچوبیس‘ سے خیبرپختونخوا میں تکنیکی مدد کا دائرہ  وسیع کر دیا گیا جس کے لئے برطانیہ کے عالمی ادارے کی مالی امداد شامل ہے۔ پنجاب کے2 اضلاع کا انتخاب کیا گیا۔ پہلا ضلع اوکاڑہ ہے جو کہ بارانی وسیلے سے سیراب ہوتا ہے جبکہ پنجاب کا دوسرا منتخب ضلع چکوال ہے جسے نہری نظام سے آبپاش کیا جاتا ہے۔ اِسی طرح خیبرپختونخوا کے دو اضلاع کا انتخاب کیا گیا جن میں ایک چارسدہ اُور دوسرا مانسہرہ ہے۔ ’ایمی پاکستان‘ کے تحت کی جانے والی اِس پوری کوشش کا بنیادی نکتہ ’فیصلہ سازوں اُور شراکت داروں کے سوالات‘ تصورات اُور خدشات کے سائنسی بنیادوں پر جوابات فراہم کئے جائیں کیونکہ سائنسی جواب ’غیرمتنازعہ‘ ہوتے ہیں اُور اِن سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا جبکہ سائنس کی روشنی میں‘ کئے گئے تجربات کے نتائج بھی ہمیشہ ایک جیسے ہی مثبت برآمد ہوتے ہیں۔ 
پاکستان کو درپیش پانی کا مسئلہ انتہائی گھمبیر اُور کثیر الجہتی ہے جسے کسی ایک فریق سے بات چیت یا فیصلہ سازوں کے ساتھ اصلاحی مشاورت یا تکنیکی مدد کی فراہمی سے ممکن نہیں ہو سکتی بلکہ اِس کے لئے ’ذرائع ابلاغ‘ کے نمائندوں کو بھی شریک سفر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ عوامی شعور کی سطح کو بلند کیا جائے اُور عوامی حلقوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات یا سوالات کے جوابات بھی دیئے جا سکیں۔ اِس سلسلے میں ’ایمی پاکستان‘ نے کولیکٹیو مائنڈ‘ کولیکٹیو ویزڈم‘ کولیکٹیو نالج اُور کولیکٹیو ایفرٹ‘ کی ضرورت کو محسوس کیا تاکہ پانی کے تحفظ‘ اِس کی پائیدار ترقی اُور اِس کے دانشمندانہ استعمال کو ہر سطح پر فروغ دیا جا سکے۔)
……