کابل کی جانب سے غیر ریاستی عناصر کے خلاف بھرپور کاروائی کرنے اور پاکستان کے ساتھ باڑ لگانے کی منظوری کسی تاریخی لمحے سے کم نہیں
آخر کار کوششیں اُور محنت رنگ لائی ہے اُور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کے نکتۂ نظر سے کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ سرحدوں پر کئی ہفتوں کی بدامنی اور اشتعال انگیزی کے بعد، ایسا لگتا ہے کہ کابل میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اختلافات دور کر دیئے گئے ہیں۔ کابل کی جانب سے یہ یقین دہانی کہ عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں روکنے کے لیے 'ٹھوس اقدامات' کیے جائیں گے، ایک امید افزا نتیجہ ہے، اور اس سے یقینا دو ہمسایہ ممالک کے درمیان باہمی تعاون میں مزید اضافہ ہوگا۔ کابل کی جانب سے افغان سرزمین پر قائم غیر ریاستی عناصر کے خلاف بھرپور کاروائی کرنے پر رضامندی اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ باڑ لگانے کی ضرورت کا احساس تاریخی لمحے سے کم نہیں ہے۔ یہ اتفاق رائے بمشکل حاصل ہوا ہے کیونکہ پاکستان جنوب مغربی ایشیائی ریاست کی حکومت کو بات چیت کرنے اور افغان حکومت کو قائل کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
افغانستان میں پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف علی درانی کامیاب سفارتکاری پر خصوصی تعریف اُور مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے ایک انتہائی نازک اُور دیرینہ مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کیا ہے۔ طورخم سرحد کی بندش، تحریک طالبان پاکستان اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے پاکستان کے اندر سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ بین الریاستی تعلقات میں پیدا ہونے والی بے چینی ایک سنگین سکیورٹی چیلنج کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ طالبان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی کی جانب سے میڈیا کو باضابطہ طور پر مطلع کیے جانے والے سخت الفاظ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دونوں ممالک کو ایسے عوامی بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیئے جو باہمی عدم اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور اس سے دہشت گرد عناصر فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان اُور افغانستان نے سمجھ لیا ہے کہ اس کے دشمن دو نہیں بلکہ ایک ہے اُور دونوں ممالک کا مفاد اسی میں ہے کہ یہ ایک دوسرے کے مفادات بالخصوص سرحدی حفاظت کا خیال رکھیں۔
پاکستان اور افغان قیادت کے درمیان حالیہ ملاقاتوں میں یہ بات نوٹ کی گئی تھا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مفرور قیادت افغانستان کے اندر چھپی ہوئی ہے جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف دہشت گرد کاروائیوں کی منصوبہ بندی اُور اُنہیں عملی جامہ پہناتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے پاکستان مخالف عناصر کو بھارت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے جس کے ناقابل تردید ثبوت بھی پیش کئے گئے ہیں۔ پاکستان اُور افغانستان کے درمیان سرحد (ڈیورنڈ لائن) کی لمبائی 2640 کلومیٹر یا 1640 میل ہے اُور اِسے محفوظ بنانے کے لئے مارچ 2017 سے کام جاری ہے۔ خاردار تاروں پر مشتمل تیرہ فٹ اُونچی دیوار کا 1268 کلومیٹرز حصہ بلوچستان جبکہ 1343 کلومیٹر حصہ خیبرپختونخوا کی حدود میں ہے۔ افغانستان کے ساتھ حالیہ مذاکرات کی کامیابی کے ساتھ اُمید ہو گئی ہے کہ دونوں ممالک کی قومی سلامتی سے جڑا یہ تعاون جاری رہے گا اُور سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے 'باقاعدگی سے مشاورت' کے علاؤہ خفیہ معلومات (انٹیلی جنس) کا تبادلہ بھی کیا جائے گا جس سے دہشت گرد کاروائیاں رونما ہونے سے قبل ناکام بنائی جا سکیں گی۔
وقت ہے کہ پاکستان اُور افغانستان کے درمیان معاشی و اقتصادی تعاون کے فروغ کے علاؤہ دہشت گردی کے خلاف بھی اتفاق رائے قائم برقرار رکھا جائے اُور دونوں ممالک ایک دوسرے کی جغرافیائی اقتصادیات کی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں جبکہ اس سلسلے میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔