مہنگائی کے اثرات : جینا مشکل، مرنا اُور بھی مشکل

جینا مشکل، مرنا اُور بھی مشکل
(تدفین و آخری رسومات: مہنگائی کے اثرات)

شبیر حسین امام 

پاکستان کے مرکزی مالیاتی ادارے (اسٹیٹ بینک) کا کہنا ہے کہ جولائی 2023ء کے مقابلے جولائی 2024ء کے اختتام پر مہنگائی کی شرح میں 28.3فیصد اضافہ ہوا ہے یعنی گزشتہ چند برس سے ہر سال مہنگائی کی شرح میں اوسطاً 25فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال جہاں آمدنی کے لحاظ سے غریب طبقے کے لئے پریشان کن ہے وہیں متوسط طبقہ جسے عرف عام میں سفید پوش بھی کہا جاتا ہے مہنگائی کے مسلسل بڑھتے ہوئے رجحان سے پریشان ہیں کیونکہ اِس کے اثرات ہر طرح کے معمولات زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں جن میں سال بہ سال تدفین کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ مختلف مذاہب میں تدفین اُور آخری رسومات پر اُٹھنے والے کم سے کم اخراجات کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا ہے گزشتہ ایک برس کے دوران تدفین یا آخری کے اخراجات میں ماضی کے مقابلے 100 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ 

حالیہ خانہ و مردم شماری (سال 2017ء) کے مطابق پاکستان میں سب سے بڑی اقلیتی برادری ہندوؤں کی آبادی 38 لاکھ سے زیادہ ہے اُور اِس آبادی میں گزشتہ سال کے مقابلے اضافہ ہوا ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی جو سال 2013ء میں 96.47فیصد تھی سال 2017ء میں 96.35 ریکارڈ کی گئی ہے۔ ادارہئ شماریات کے مرتب کردہ اِن اعدادوشمار ہندو اقلیت کے بعد دوسری بڑی آبادی عیسائیوں کی ہے جو 33 لاکھ ہے۔ سکھ مذہب کے ماننے والے پاکستانیوں کی تعداد 15ہزار 998 جبکہ پارسیوں کی آبادی 2 ہزار 348 جبکہ اقلیتوں میں شمار ہونے والے احمدی (قادیان سے نسبت کی وجہ سے قادیانی کیمونٹی) کی آبادی آبادی محتاط اندازے کے مطابق  2.2فیصد ہے لیکن یہ کیمونٹی خانہ یا مردم شماری یا انتخابی مہمات میں حصہ نہیں لیتی۔ پاکستان کی آبادی مجموعی طور پر 2.55 فیصد سالانہ کے تناسب سے بڑھ رہی ہے جس کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی خطرے کی علامت ہے اُور یہ سال 2029ء میں 40 کروڑ سے زیادہ ہو جائے گی!
 
تدفین اُور آخری رسومات کے کم سے کم اخراجات شہری علاقوں میں رہنے والے مسلمان مسالک کے ہاں 10 ہزار جبکہ دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے ہاں 5 ہزار روپے ہیں۔ شہری علاقے میں کفن کی قیمت‘ میت کو قبرستان تک پہنچانے کے لئے گاڑی کا خرچ‘ قبر کھدائی‘ قبر کے لئے اضافی مٹی‘ پتھر کی سلیں‘ چھٹائیاں‘ عرق گلاب اُور پھول درکار ہوتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں حجرہ اُور مسجد کے مرکزی کردار اُور سماجی خدمات کی وجہ سے یہ اخراجات کسی مرحوم یا مرحومہ کے لواحقین کو برداشت نہیں کرنا پڑتے۔ ہندو اُور سکھ کیمونٹی کے ہاں چونکہ میت کو جلایا جاتا ہے اُور اِس کے لئے تین سے پانچ من لکڑی اُور گھی درکار ہوتی ہے اِس لئے آخری رسومات کے اوسط اخراجات ایک لاکھ روپے تک پہنچ جاتے ہیں چونکہ ہر ضلع میں شمشان گھاٹ نہیں ہوتا جہاں میت کی آخری رسومات ادا کرنے کے لئے کم سے کم تین گاڑیوں کا بندوبست کیا جاتا ہے اُور یوں قریب پچاس افراد کی نقل و حرکت کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ مسیحی برادری کے ہاں تدفین کی جاتی ہے جس کے جملہ اخراجات جو کہ کم سے کم 20ہزار روپے ہوتے ہیں اکثریت کے لئے گرجا گھر کی طرف سے ادا کئے جاتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی جانب سے تدفین کے جملہ اخراجات مسجد کی طرف سے ادا ہوتے ہیں جس میں کفن دفن کے جملہ مراحل شامل ہیں۔

مہنگائی کے اثرات کم کرنے میں  سماجی تعلق اور اجتماعی فلاح و بہبود کے ثمرات نمایاں ہیں۔ مخیر حضرات کی جانب سے مستحقین کی مدد ہر مذہب اور مسلک کے ہاں رائج ہے۔

یکساں ذمہ داری ہر خاص و عام پر عائد ہوتی ہے کہ معاشی سست روی کے دور میں مہنگائی سے نمٹنے کے لئے سماجی سطح پر اقدامات و انتظامات کو ترجیح دی جاتے تاہم بڑھتے ہوئے معاشی و اقتصادی مسائل کا حل سادگی اختیار کرنے ہی میں پوشیدہ ہے اور زمینی حالات متقاضی ہیں کہ خوشی اُور غم کے مواقعوں پر اخراجات میں اعتدال اُور اِسراف سے بچنے کے لئے شعوری اور مربوط کوششیں کی جائیں۔
……