پاکستان مہنگائی کی لپیٹ میں ہے اور اِس دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا نہ ہی کوئی ترکیب و ترتیب کام آ رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکے بعد دیگرے غیرمعمولی کمی کے فوائد عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے یا اگر پہنچ بھی رہے ہیں تو اِن کا تناسب خاطرخواہ نہیں۔ دلدلی مہنگائی سے نمٹنے کے لئے جو اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں وہ ادارہ جاتی چالوں کا مجموعہ ہیں اُور ایک عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے متعلقہ حکومتی ادارے نہ تو ’خودساختہ مہنگائی‘ پر قابو پانے میں سنجیدگی سے اقدامات کر رہے ہیں اُور نہ ہی اشیائے خوردونوش کا معیار یقینی بنانے میں زبانی دعوو¿ں کے مقابلے کامیابی کا تناسب قابل ذکر ہے
گزشتہ ہفتے کے اختتام تک کی صورتحال سے متعلق حکومتی اعدادوشمار کے مطابق‘ بنیادی ضروریات زندگی (اشیائے خوردونوش) کی لاگت میں مسلسل پانچویں بار اضافہ ہوا ہے اُور یہ 38 فیصد سے زیادہ ہے۔ جس کی وجوہات میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ‘ بجلی‘ گیس کے نرخوں میں اضافہ اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے کے لئے مارکیٹ پر کنٹرول نہ ہونے جیسے محرکات شامل ہیں۔ یہ صورتحال اِس قدر افسوسناک ہے کہ اگر پیٹرولیم مصنوعات (پی او ایل) کی قیمتوں میں کمی کی بھی جاتی ہے تو اِس سے عام آدمی (ہم عوام) کی زندگیوں میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اُور اِس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ مہنگائی مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے! کیا ہم عوام کے لئے ایسے اقدامات کئے جائیں گے جن سے وہ راحت (سکھ کا سانس) لیں؟ وفاقی اُور صوبائی حکومت کو ضلعی انتظامیہ کی مہنگائی روکنے میں ناکامی کا نوٹس لینا چاہئے تاکہ اسمگلنگ کی روک تھام اور پاکستان سے ڈالروں کی غیرقانونی نقل و حمل (گرین بیک پرواز) روکنے جیسے انقلابی اقدامات کے ثمرات و نتائج سے معاشی بہتری لائی جا سکے۔
مہنگائی کے خودساختہ محرکات میں ’شرپسند عناصر‘ کی سازشوں کا عمل دخل ہے جو مارکیٹ کی قیمتوں میں اضافے کا اختیار رکھتے ہیں اُور ناجائز منافع خوروں کے ایسے گروہوں کے خلاف خاطرخواہ کاروائی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ درحقیقت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ایک ایسی ’مضبوط پالیسی‘ کی بھی ضرورت ہے جس میں حکومتی اداروں کو چوکس‘ بیدار اُور فعال کیا جائے۔ اِس سلسلے میں جب تک ’مائیکرواکنامک مینجمنٹ‘ نہیں کی جائے گی اُس وقت تک خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ڈویژنز اُور اضلاع کی سطح پر ’پرائس کنٹرول بیوروکریسی‘ اور بالخصوص ’ضلعی انتظامیہ‘ بنیادی طور پر مہنگائی اُور مہنگائی سے براہ راست متاثرہ عوام کی حالت زار کے لئے ذمہ دار ہیں۔
مارکیٹ میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور اسٹیگ فلیشن (خودساختہ یا مصنوعی مہنگائی) کم کرنے کے لئے جو راستہ قابل عمل معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ قوانین اُور قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے اُور قانون کا خوف بحال کیا جائے جس کے لئے انتظامی اصلاحات اُور اِس جوش و جذبے کی بھی ضرورت ہے کہ منافع خوروں کی بجائے عوام کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ مارکیٹ کی رسد اور طلب میں توازن اور قیمتوں کو برقرار رکھنے کے لئے مداخلت ناگزیر حد تک ضروری ہو چکی ہے۔ رواں ہفتے سے جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے تو اِس سے مہنگائی میں بھی کمی آنی چاہئے جسے ’ٹیسٹ کیس‘ کے طور پر لیتے ہوئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو اعتدال پر لانے کی ضرورت ہے۔ ایک عام آدمی اگر دو وقت کی روٹی روزی جیسے تفکرات سے آزاد ہو جائے تو اِس کے بعد اُس کی خواہشات زیادہ نہیں ہوتیں اُور یہی وہ نکتہ ہے جس میں سماجی و سیاسی استحکام کا راز پنہاں ہے۔