پاک افغان رابطے بحال

پاک افغان رابطے بحال

افغانستان چونکہ ایک لینڈ لاک ملک ہے اور بیرونی دنیا سے تجارت کے لئے وہ اپنے دو پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران پر انحصار کرتا ہے اس لئے اسے اپنی تمام برآمدات اور خاص کر درآمدات کے لئے پاکستان کی بندگاہوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان کو اپنی اسی مجبوری کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ پہلے 1965 اور بعد ازاں 2010 میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کرنا پڑا تھا جن کے تحت پاکستان افغانستان کو زمینی راستوں سے نہ صرف اپنی بندرگاہوں تک رسائی دینے کا پابند ہے بلکہ ان معاہدوں کی رو سے اسے بین الاقوامی ضمانتوں کے تحت کئی مراعات بھی حاصل ہیں۔ یادر ہے کہ ان معاہدوں کے تحت افغانستان پاکستان کے ساتھ زیادہ تر تجارت تو طور خم اور چمن کے راستوں سے کرتا ہے لیکن کچھ عرصے سے پاک افغان باہمی تجارت میں کچھ رکاوٹیںحائل ہیں جس کی وجہ سے دونوں جانب کی تجارت زبوں حالی کی طرف گامزن ہے اور دونوں ممالک کے درمیان گشیدگی او رتناؤ کی صورت حال ہے۔افغانستان مین جب سے طالبان کی عبوری حکومت آئی ہے تو عام تاثر یہی تھا کہ پاکستان اور تخت کابل میں پھر سے نئی قربتیں بڑھیں گی لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا پاکستان اور افغانستان کے درمیان کافی حد تک دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ لیکن گزشتہ ہفتے پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل تعطل کے بعد مذاکراتی عمل دوبارہ بحال ہو گیا ہے پہلے مرحلے میں حال ہی میں تعینات کیے جانے والے نمائندہ خصوصی برائے افغان امور محمد صادق کابل گئے جہاں وہ افغان وزیر خارجہ امیر محمد متقی اور افغان وزیر داخلہ ملا سراج الدین حقانی سے ملاقات کی ان ملاقاتوں میں ہمسایہ ملک کے درمیان مسائل کو مشترکہ کوششوں کے ذریعے حل کرنے کے علاوہ سیاسی ، اقتصادی، تجارتی اور ٹرانزٹ کے شعبوں میں موجودہ مشترکات کا بہتر استعمال کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔اس موقع پر نمائندہ خصوصی محمد صادق خان نے کہا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات میں وسیع پیمانے پر بات چیت ہوئی، جس میں دو طرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ خطے میں امن اور ترقی کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ دوسری طرف افغانستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ افغان وزیر خارجہ نے ملاقات میں کہا کہ افغانستان کی حکومت پاکستان کے ساتھ مثبت تعلقات کے لیے پر عزم ہے اور ہم دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی، تجارتی اور ٹرانزٹ شعبوں میں مشترکات کا بہتر استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل محمد صادق خان نے وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی سے بھی ملاقات کی جس میں فریقین نے تعلقات کی بہتری اور موجودہ مسائل کے حل کے لیے اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ دونوں ممالک کے اعلی حکام کے درمیان ایک طویل عرصے کے بعد رابطہ ہے۔ محمد صادق خان نے خلیل الرحمان حقانی کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان اور پاکستان کے درمیان موجودہ مسائل کو مشترکہ کوششوں کے ذریعے حل کرنے کے لیے پر عزم ہیں، تا کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور سول تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکے۔ وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی نے تاکید کی کہ موجودہ وقت اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امن وامان اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں تیز کی جائیں، تا کہ دونوں قوموں کے درمیان تعلقات خراب ہونے سے محفوظ رہیں اورخطے کے استحکام اور ترقی کا ضامن ہوں۔ پاکستان اور افغانستان صرف پڑوسی ملک نہیں بلکہ ان کے درمیان مذہب ثقافت اور زبان کے رشتے بہت گہرے اور رشتہ داریاںبھی ہیں، جنہیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اپریل 1948 ء میں جب قائد اعظم محمد علی جناح نے طورخم کا دورہ کیا تو آپ سرحدی زنجیر پار کر کے دوسری جانب گئے، افغان بارڈر گارڈ سے ہاتھ ملایا اور فرمایا'' واہگہ دو قوموں کو تقسیم کرتی ہوئی سرحد ہے اور طورخم ایک قوم کے دو ممالک کو جوڑنے والی سرحد ہے''۔ باوجود اس کے کہ افغانستان کی بھارت نواز حکومتوں نے پاکستان میں مداخلت سے گریز نہیں کیا، لیکن پاکستان نے کبھی افغان سرحد پر فوج نہیں لگائی، اس وقت تک کہ جب افغانستان میں امریکہ کے آجانے کے بعد امریکیوں نے وہاں بھارت کی مدد سے دہشت گردوں کی نرسریاں کھولیں اور پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ مسلط کردی۔ پاک افغان تعلقات کی پون صدی کو دیکھا جائے تو طالبان حکومت کا پہلا دور وہ واحد وقت ہے جب پاکستان کو افغانستان سے بھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ پاکستان کی توقع یہی تھی کہ 70 کی دہائی سے اب تک لاکھوں افغانوں کی میزبانی، ہزاروں شہریوں کی جانب سے افغان مجاہدین سے عملی تعاون اور افغان مجاہدین سے تعلق کے جرم میں ریاست پاکستان کو پہنچنے والے بھاری نقصانات کا خیال رکھتے ہوئے طالبان کی دوسری حکومت بھی ملا عمر کی حکومت کی طرح ہی اچھے تعلقات رکھے گی، مگر بد قسمتی سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ امریکہ اور بھارت کے افغان سرزمین پر قائم کردہ دہشت گردی کے اڈے ابھی تک کام کر رہے ہیں، جہاں سے آنے والے دہشت گردوں کے جتھے پاکستان میں خونریزی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ امریکہ کے نکل جانے کے باوجود بعض عناصر ایسے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان امن نہیں ہونے دے رہے، یہ دونوں ممالک کے مشترکہ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے خونریزی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کی حکومت اور عوام کسی صورت ایک دوسرے کے دشمن نہیں لیکن دونوں ملکوں کے دشمن عناصر سازشوں کے ذریعہ سے تعلقات کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔مسئلے کا حل باہمی لڑائی، ناراضی یا کشمکش اور الزام تراشی نہیں بلکہ رابطوں کی بحالی، بات چیت میں اضافہ، ایک دوسرے کے مسائل کوسمجھنے اور مل کر مشترکہ دشمن کے خلاف جد جہد میں پنہاں ہے۔ طویل عرصے کے بے معنی تعطل کے بعد اب رابطوں کی بحالی خوش آئند ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان رابطوں کو مستحکم ہونا چاہئے، دونوں حکومتوں کو چاہئے کہ کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کی بات سنیں اور مل کر دہشت گردی سمیت تمام مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی بنا ئیں، یا در رکھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں ملک ایک چمن کی مانند ہیں، امن کی بہار آئے گی تو دونوں جانب ترقی کے پھول کھلیں گے۔ کسی جانب آگ لگے گی تو دوسرا بھی لاز ماً متاثر ہوگا، دونوں کا نفع و نقصان قدرت نے اکٹھا رکھ دیا ہے، بہتر یہی ہے کہ مل بیٹھ کر مسائل کو حل کریں اور مشترکہ مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔