گزشتہ روزپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا گیاہے ۔ ہائی سپیڈ ڈیزل 19روپے 90 پیسے مہنگا کیا گیا ہے جس کے بعد ہائی سپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 273روپے 40پیسے ہوگی۔جبکہ پٹرول کی قیمت میں 19روپے 95پیسے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 272روپے 95 پیسے ہوگئی ہے۔ پٹرول مصنوعت کی قیمتوں میں حالیہ اضاافہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا نتیجہ ہے ۔دوسری طرف ماہرین کے مطابق قیمتیں اس سے اور بھی زیادہ بڑھ سکتی ہیں۔ حکومت اگر اپنی معاشی صورتحال کو بہتر کرلے، بیرون ممالک سے کیش آجاتا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے سے روپے کی قدر کچھ بہتر ہوسکتی ہے ورنہ یہ مزید گرے گی اور پیٹرول 300سے زائد میں فروخت ہونے کا خدشہ ہے ۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کرے گا۔عالمی سطح پر پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان سمیت کئی معیشتوں کے لیے باعث تشویش ہے، پاکستان تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اتار چڑھاو¿ سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ متبادل توانائی کے ذرائع پر توجہ مرکوز کرنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ حکومت صارفین کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے۔ وزیر اعظم پاکستان جو عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کو اس معاملہ میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے، بڑا فیصلہ کرنا چاہئے، عوام میں اب مزید مہنگائی برداشت کرنے کی ہمت باقی نہیں بچی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بین الاقوامی مارکیٹ کے زیر اثر ہوا ہے اور تاہم جب پڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح میں جو 50فیصد سے زائد کمی ہوئی تھی تو اس سے عوام کو مستفید کرنا بھی ضروری تھا۔یعنی جس طرح پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات فوری طور پر عوام کو منتقل ہوجاتے ہیں اسی طرح پٹرول قیمت میں عالمی سطح پر ہونے والی کمی کے اثرات کو بھی عوام تک منتقل کرنا ضروری ہے ۔ایسے حالات میںکہ جب حکومت چنددن بعد الیکشن میں جارہی ہے عوام کو ریلیف دینے کیلئے جو بھی قدم اٹھائے گی اس کے دور س اثرات سامنے آئیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی پار ٹیاں سیاسی مفادات سے قطع نظر ملکی معیشت کی بحالی اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے مل کر لائحہ عمل تشکیل دیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی فی لیٹر قیمت پر لگائے گئے ٹیکس اور ڈیوٹیاں ختم کرے۔ دوسری جانب کاروباری سرگر میوں میں اضافے کیلئے بھی ضروری ہے کہ عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہو۔ اس وقت تو عوام کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور یہ صورت حال صحت مند معاشرے اورملکی معاشی ترقی کے لئے کسی طور بھی سود مند نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف اوراس کی ٹیم نے ملک کو مشکل حالات سے نکالا ہے اور ایسے حالات میں کہ جب عالمی سطح پر کساد بازاری اور مندے کے اثرات کے تحت ملکی معیشت بھی مشکل سے دوچار تھی، وزیر اعظم اور اس کی ٹیم نے دن رات ایک کرکے محنت کی اور بالاخر نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ پیکج ڈیل کرڈالی بلکہ کئی دوست ممالک کی طرف سے بھی پاکستان کی معاشی مدد کی صورت میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس وقت پاکستان میں سی پیک کے منصوبے زور و شور سے جاری ہیں اور ان میں سے زیادہ تر منصوبے آخری مراحل میں ہیں۔ان منصوبوں کی تکمیل سے ان کے معاشی اثرات جلد ہی سامنے آنا شروع ہوجائیںگے۔ان میں سے ایک کراچی سے پشاورتک دور ویہ ریلوے لائن ہے جو ملک کی معاشی ترقی میں ایک تاریخی انقلاب بر پا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پشاور کے راستے افغاانستان اور وسطی ایشیاءتک سامان کے نقل حمل کا ایک تیز ترین اور سستا ذریعہ ہاتھ آجائے گا بلکہ اس سے اندرون ملک بھی معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جلدہی ملک ان معاشی مشکلات سے نکل جائیگا جس کا سامنا عالمی سطح پر معاشی بحران کی صورت میں تمام دنیا میںممالک کو ہے ۔ تاہم یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان جو وسائل اور قدرتی ذرائع سے مالاما ل ہے ان مشکل حالات کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ رکنے والے ممالک میں شامل ہے ۔