یہ علاقائی تجارت کو فروغ دینے کا دور ہے کیونکہ اس طرح پورا خطہ ترقی اور خوشحالی کے منزل کو پا سکتا ہے ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اس پہلو سے بہت اہم ہے۔اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر باہمی تجارت کیلئے سازگار ماحول پیدا کیا جاتا ہے تو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر سے بڑھ سکتا تھا۔ تجارت حجم میں گراوٹ کی ایک بڑی وجہ افغانستان کا بینکنگ کے عالمی نظام سے وابستہ نہ ہونا ہے۔ تاہم اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی وجوہات میں جو دونوں ملکوں کے در میان تجارت کے فروغ میں رکاوٹ ہیں۔ افغانستان چونکہ اس سے پہلے زیادہ تر غیر ملکی امداد پر انحصار کرتا تھا ، غیر ملکی امداد اس کے کل بجٹ کے اخراجات کا 70 فیصد بنتی تھی، جو طالبان حکومت کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہ ہونے کی وجہ سے اب نہیں آ رہی ہے۔ امریکہ نے اپنے بینکوں میں موجود سات ارب ڈالر کے افغان اثاثوں کا اجرا روک دیا ہے۔ اس کے علاوہ، سرحد پر انتظامی حوالے سے بعض رکاوٹیں تجارت کو فروغ دینے کی راہ میں حائل ہیںجس کے نتیجے میں تجارت کے حجم میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ تا ہم امید کی ایک کرن موجود ہے۔ حال ہی میں پاکستان نے سرحدی پابندیوں میں نرمی کرتے ہوئے کو ئلے کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب تک پاکستان کا زیادہ تر انحصار جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، انڈونیشیا وغیرہ سے درآمد ہونے والے کوئلے پر تھا، اب افغانستان کے کو ئلے میں نئی دلچسپی پیدا ہورہی ہے جو دیگر برآمد کرنے والے ممالک کے کوئلے سے کافی ستا ہے۔ پاکستان کے تھرمل پاور پلانٹس کو کو ئلے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت بڑھ رہی ہے۔افغانستان چونکہ ایک لینڈ لاک ملک ہے اور بیرونی دنیا سے تجارت کے لئے وہ اپنے دو پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران پر انحصار کرتا ہے اس لئے اسے اپنی تمام برآمدات اور خاص کر درآمدات کے لئے پاکستان کی بندگاہوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان کو اپنی اسی مجبوری کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ پہلے 1965 اور بعد ازاں 2010 میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کرنا پڑا تھا جن کے تحت پاکستان افغانستان کو زمینی راستوں سے نہ صرف اپنی بندرگاہوں تک رسائی دینے کا پابند ہے بلکہ ان معاہدوں کی رو سے اسے بین الاقوامی ضمانتوں کے تحت کئی مراعات بھی حاصل ہیں۔ یادر ہے کہ ان معاہدوں کے تحت افغانستان پاکستان کے ساتھ زیادہ تر تجارت تو طور خم اور چمن کے راستوں سے کرتا ہے لیکن ان کراسنگ پوائنٹس کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں وانا انگور اڈہ ، کرم میں خرلاچی اور شمالی وزیرستان میں غلام خان کے کراسنگ پوائنٹس بھی پاک افغان دوطرفہ تجارتی روٹس کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان سے افغانستان اور بعض امپورٹڈ اشیا ءکی ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں افغانستان سے پاکستان کوسمگلنگ دونوں ممالک کے درمیان وجہ تنازعہ بنتی رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے بدلے افغانستان سے وسطی ایشیائی ریاستوں تک زمینی رسائی کا مطالبہ کرتارہا ہے تاہم پاکستان باوجود کوشش اور خواہش کے وسطی ایشیائی ریاستوں ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغیزستان اور قازقستان تک زمینی تجارت کی سہولیات کے حصول سے محروم چلا آ رہا ہے۔ 2010کا ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کی بندرگاہوں، شاہراہوں اور ریل روڈز کا استعمال کرتے ہوئے سامان کی منتقلی کی اجازت دیتا ہے۔ اس معاہدے کی ایک شق کے مطابق افغانستان واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت کو تو اپنا سامان بھیج سکتا ہے لیکن بھارت کو اسی راستے سے سامان واپس افغانستان بھیجنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2015میں تاجکستان کو ابتدائی طور پر اس تجارتی معاہدے میں شامل کیا گیا تھا لیکن بعد میں افغانستان اس سے دستبردار ہو گیا تھا۔جہاں تک پاک افغان تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا معاملہ ہے تواس حوالے سے شکایت ہے کہ سرحد پار کرنے سے پہلے سکریننگ کا آلہ بھی چھوٹا یعنی موٹر کاروں والا ہے جس سے کام ست روی کا شکار رہتا ہے جب تک ان مسائل کو حل نہیں کیا جا تا طورخم بارڈر کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ ستمبر2021میں افغانستان کے لئے پاکستان سے برآمدات قریب 80ملین ڈالر ہیں جبکہ افغانستان سے پاکستان کے لئے درآمدات ساڑھے بارہ کروڑ 125ملین ڈالر ر ہیں ۔یوں مجموعی طور پر پاک افغان دوطرفہ تجارت کا حجم قریب 1.83ارب ڈالر ہے۔ پاکستان نے 85کروڑ ڈالر سے زیادہ مالیت کی اشیا و اجناس برآمد کیں اور اس کی درآمدات تقریبا ستانوے کروڑ ڈالر ر ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھا جائے تو پاک افغان تجارت میں افغانستان کا پلڑا بھاری ہے ۔حالیہ چند دہائیوں کے دوران افغان تاجروں کی سرمایہ کاری متحدہ عرب امارات اور تر کی منتقل ہوئی ہے جبکہ پاکستان کا استعمال صرف اور صرف راہداری کی حد تک کیا جا رہا ہے۔ لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی اور اگر حکومت پاک افغان تجارتی ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے لائحہ عمل مرتب کرے تو ماضی میں کروڑوں لیکن آج کم سے کم لاکھوں ڈالر سرمایہ کاری راغب کی جاسکتی ہے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو پڑوسی افغانستان کے تاجر متحدہ عرب امارات اور ترکی کی بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں گے کہ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کا معاشی فائدہ ہو گا۔
پاک افغان سرحد سے متصل صنعتی بستی کیوں نہیں بنائی جاسکتی جس کا نہ صرف قبائلی اضلاع بلکہ پورے ملک کو فائدہ ہوگا۔