سوشل میڈیا:شیئر کر لیا

   ”اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہیں کسی قوم کو بے جا ایذا نہ دے بیٹھو، پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ“(سورہ حجرات۔6) حضرت تھانوی نے فاسق کا ترجمہ شریر اور دیگر مفسرین نے گنہگار کیا ہے‘ امام احمد رضا خان نے اس آیت سے یہ استنباط کیاہے کہ ایک شخص اگر عادل ہے تو اس کی خبر معتبر ہے(کنزالایمان) حضرت تھانوی نے اس سے شرعی حکم ثابت کیا ہے کہ بغیر تحقیق کے ایسی خبر پر عمل نہیں کرنا چاہئے(بیان القرآن)۔ البتہ بڑے پتے کی بات علّامہ شبیر احمد عثمانی نے کہی ہے کہ’اکثر نزاعات ومناقشات کی ابتدا جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے‘(تفسیر عثمانی) یہ آیت آج کل کی مادر پدرآزاد سوشل میڈیا کے لئے ایک زبردست قانون، تادیب اور وعید ہے۔ بغیر تصدیق کے سنی ہوئی بات کو آگے پھیلانا بھی ازروئے حدیث انسان کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے۔ سوشل میڈیا پر جو بھی اول فول، واہیات خرافات، الزام دشنام، قذف بہتان اور پروپیگنڈا لکھ کر آگے پھیلائیں اور پھر جب لوگ دیکھ لیں تو کچھ وقفے کے بعد ثبوت سمیت مٹائیں یعنی ڈیلیٹ کریں‘ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے، جھوٹ بھی بولا، غیبت، کمینگی اور رزالت بھی کی اور ہاتھ بھی صاف کر لیے‘ لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات بھی ڈال دیئے، غلط خبریں،افواہیں بھی پھیلائیں، بے پرکی بھی اْڑائی اور صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ جرم بھی کیا اور دستانے بھی پہن لیے۔ یہ ہیں سوشل میڈیا کی وہ چالیں جس میں آج کل سارا معاشرہ بْری طرح جکڑ چکا ہے۔فرض کریں کسی کے ہاتھ میں سونے کی چھری آبھی گئی تو کیا وہ پیٹ میں گھونپے گا؟ اگر کسی کے پاس قلم کی طاقت آگئی تو کیاوہ اس سے سفید پوشوں پر سیاہی پھیرے گا؟ خواتیں کی پاکدامنی، عفت، شرافت اور خاندانی نجابت پر کیچڑ اْچھالے گا؟ آزادی اظہارِ رائے کا مطلب جھوٹ بولنا، الزامات لگانا، بے سروپا خرافات لکھنا، ہذیان بکنا، کسی کے دامن پر داغ لگانا اور کسی کی ذات اور خاندان کے منہ پر کالک ملنا نہیں ہے۔ کسی ترقی یافتہ اور آزاد جمہوری ملک میں جو کوئی اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ایسا کرے گا تو وہاں اس کو نہ صرف قانون کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ایسا شخص معاشرے میں اپنی ساکھ کھوکر اپنا روزگار بھی کھو سکتا ہے۔ معاشرے کی طرف سے یہ چیک اینڈ بیلنس وہاں کی تعلیم یافتہ اور منصف مزاج معاشرے کے اندر ایک زبردست خود احتسابی کا عمل ہے جو صدیوں کی تعلیم وتربیت،احترام آدمیت، قانون کی حکمرانی اور تہذیبی روایات کے پروان چڑھنے سے اب ان معاشروں کی طاقت بن چکا ہے۔ قانون کی دفعہ 501,502 500,کے تحت کسی ایسے موادکا چھاپنا جس کا مقصد ہتک عزت ہو یا مختلف طریقوں، خاکوں اشاروں سے بیان کرنا جس سے کسی کی شہرت، ساکھ کو نقصان ہو یا اْسے رنج پہنچے جرم ہے جس کی سزا پانچ سال قید یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہے اور جو جان بوجھ کر اس مواد کو آگے پھیلائے یعنی شیئر کرے،وہ دو سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں کی سزاکا مستوجب ہے۔ اس کے لیے ازالہء حیثیت عرفی کا الگ قانون   بھی موجود ہے جس میں اتہام اور ہتک آمیز مواد کی مکمل تفصیل دی گئی ہے۔  ایک دماغی وبا ء اور ہاتھوں کا طاعون سمارٹ فون کے استعمال کے دوران میں یہ پھیل گیا ہے کہ جیسے ہی کوئی پوسٹ یا خبر آجاتی ہے اور جس میں تکنیکی مہارت سے تبدیلی کی گئی ہوتی ہے تو شرارتی ذہن فوراً اْسے مختلف گروپس میں شیئر کر دیتا ہے۔ پولیس میں بعض لوگوں سے جب پوچھاگیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تو جواب ملا کہ ہم نے تو کچھ نہیں کیا، ہم نے تو صرف آگے شیئر کیاہے ورنہ ہم نے لکھا ہے نہ بنایا ہے۔ یہ معصومانہ جواب ان کو سزا سے نہ بچا سکا۔ ذراسخت لہجے میں  جب اْن سے کہا گیا کہ اگر کوئی پوسٹ آپ یا آپ کے والدین کے خلاف ہو تو کیا آپ اس کو اِسی طرح آگے شیئر کریں گے؟ جواب ملا نہیں۔ پھرتو انصاف نہ ہوا کہ دوسروں کی عصمت وعفت پر سیاہ دھبےّ پڑ رہے ہوں  اور آپ اس کا لطف اْٹھااْٹھا کر اور مزے لے لے کر آگے شیئر کرتے رہیں؟ یہ سراسر ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اس قانون کو ناقابلِ راضی نامہ اور قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر کسی کا کارٹون بنانا، مسخرہ بنانا، استہزا کرنا، رمزوکنایے اور علامات واشارات کی مدد سے چہ میگوئیاں کرنا، آنکھوں آنکھوں اور دبے دبے لفظوں میں دلوں میں وسوسے ڈالنا (یوسوس فی صدورالناس)، غیبت کرنا(کہ مردے بھائی کا گوشت کھانا ہے)، ٹھٹھہ کرنا، مذاق اْڑانا یا کوئی بھی ایسا کام، ایسی شکل بنانا،ایسی تحریر لکھنا یا ایسی تقریر کرنا جس سے مخاطب کورنج، تکلیف، ایذا پہنچے، وہ اپنی آنکھوں میں گرے اور اپنے دوست احباب اور خاندان کے سامنے شرمندہ ہو، معاشرے میں بلاوجہ شرم کے مارے سرجھکاکے چلنے پر مجبور ہوکہ کس کس کو وضاحتیں دیتا پھرے، ایسا کرنے والے کے لیے سخت قید یا جرمانے کی سزا ناکافی ہے۔ اس میں نیت اور بدنیتی کی بحث بھی فضول اور وقت کا ضیاع ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی ہتک آمیز باتیں اپنے والد ین کے بارے میں لکھ کر خوشی کا اظہار کر سکتا ہے تو اس کی نیت کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے ورنہ کھڑے کھڑے اس کو زبردست اسّی کوڑوں کی سرعام سزا دینی چاہیے۔آفریں کہ پاک فوج میں سمارٹ فون کا دفاتر اور سرکاری اْمور کے دوران استعمال کرنے پر سخت پابندی ہے۔ خلاف ورزی پر فوجی افسر کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ فوج کے اندر قابلِ ستائش حد تک ڈسپلن اور نظم وضبط کا قانون فوج کی خوبی ہے۔ پولیس میں درجنوں بار ہر آئی جی اور ڈی آئی جی نے ایسے احکامات جاری کیے مگر ناکے، تھانے، دفتر میں سمارٹ فون ہی چل رہے ہیں حالانکہ ایسے مرتکب اہلکاروں کے لیے اخلاقیات کا کورس موجود ہے یا ایسے اہلکاروں کو فی الفور برخاست کرنا چاہئے۔ سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال ایک عذاب بن چکا ہے۔  اس طوفانِ بدتمیزی کی یلغار میں معاشرے میں متانت، وقار، سنجیدگی،باہمی عزت واحترام اور زبان وبیان میں حزم واحتیاط کی روایات کو فروغ دینے کی ضرورت تھی۔ توقع تھی کہ سماجی ادارے سوشل میڈیا پر آکر سنجیدہ اور مدلل باوقار گفتگو کریں گے  تاکہ شرم وحیا، لاج اور پردہ پوشی کی اقدار پیدا ہوں اور پاکیزہ اخلاق سے تربیت ہو سکے پاکستانی معاشرہ جو پہلے سے بدترین انتشار وخلفشار کا شکارہے کو ان خرافات واہیات سے بچانے کے لیے سخت نہیں آہنی قوانین اور ان پر بے لاگ  عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے لوگوں کے اخلاق کا جنازہ نکال دیا ہے اور شریف لوگ خاموش تماشائی بن کر فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔ رہے نام اللہ۔