دُنیا میں عظیم انسانوں کی کمی نہیں۔ البتہ عظمت کے پیمانے مختلف بھی ہوں تو انسانی عظمت وشرافت کے بنیادی عناصر ہر قوم، ہر تہذیب اور ہر زمانے میں یکساں ہوتے ہیں۔ 26ستمبر 2021ء کو پشاور میں ایک عظیم انسان اس جہان سے کوچ کر گیا اور تلہ گنگ میانوالی جاکر آسودہئ خاک ہوا۔ اُستاد سعید بلاشبہ ایک پاکباز اور ایک راست باز انسان تھے۔ میں آج کل اپنے سفر نامہ ”ذوقِ پرواز“ کو ترتیب دینے کے آخر ی مراحل سے گزر رہا ہوں۔ اس کے بعد اپنے علمی مضامین کو ترتیب دوں گا اور پھر عظیم انسانوں پر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ ہے۔بابائے اردُو مولوی عبدالحق نے نام دیومالی اور نور خان پر لکھا۔ ان کے نزدیک عظمت کا جو پیمانہ تھا میں نے بھی اُسی پیمانے کو سامنے رکھا ہے۔ اُستاد سعید ایک اعلیٰ اخلاق کا مالک، رزق حلال (وہ بھی سو فیصد) کمانے والا، سچا محبِ وطن، دیانتدار، انسان دوست، نظم وضبط کا دلدادہ، کھری کھری اور دوٹوک بات کرنے والا، غریب پرور، مخلص، وقت اور اپنے اصولوں کا انتہائی پابند، اور محنت کش سادہ سا انسان۔ اس کی وطن عزیز سے بے پناہ محبت اور ملکی مسائل پر ہر وقت دلسوزی کے آگے بہت ساروں کی ایمانداری اور حب وطن کے نغمے گانے والوں کی حب الوطنی کچھ بھی نہیں۔ وہ ایک باشعور اور حساس انسان تھے۔ بیدار مغزی اور شعورو آگہی سے مزین اُستاد سعید کی باتوں میں حکمت وبصیرت اور عام انسانوں کے مسائل پر جلے بھنے دل ودماغ کو دیکھ کر میری آنکھوں میں کئی ڈگری یافتہ افسران بونے نظر آتے تھے۔ شوگر اور بلڈ پریشر جیسے امراض میں مبتلا رہے۔ مجال کہ ایک دن بھی کوئی کلمہ منہ سے ایسا نکالا ہو کہ اس سے کفرانِ نعمت اور شکوہ خاکم بدہن کا گمان گزر ے۔ صبر وشکر کی اعلیٰ دولت سے مالا مال انسان تھے۔ پہلی بیوی وفات پاگئی اور دوسری نباہ ناکام رہی تو ایک بیوہ سے نکاح کیا اور اس کی دو بیٹیوں کی کفالت کا ذمہ بھی اُٹھایا۔ غریبی میں یہ اضافی بوجھ بھی برداشت کیا۔ ایک دن مجھ سے کہا کہ میں نہ جھوٹ بولتا ہوں نہ دھوکہ دیتا ہوں، نہ سازش اور فراڈ کرتا ہوں، نہ کسی کا حق مارتا ہوں نہ ملاوٹ کرتا ہوں نہ حرام کھاتا ہوں۔ میں نے کہا، استاد، یہی تو اصل مسئلہ ہے۔ لوگ سب کچھ کر سکتے ہیں مگر یہ کام نہیں کر سکتے۔ میں اکثر اپنے لیے اُس سے دُعا بھی کراتا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ کسی اور سے اُستا د سعید کی دُعا زیادہ کارگر ہے کیونکہ یہ رزق حلال کھاتا ہے۔ یقین کریں میرے حق میں اس کی وہ دُعا قبول بھی ہوئی۔ ایک دن نہایت خفہ اور آرزدہ تھے۔ مجھ سے کہا کہ میں ایک بیوہ کی مدد کیلیے اپنے بیٹے کو ماہانہ جو چند ہزار روپے دیتا تھا، اب معلوم ہوا ہے کہ وہ اس سے کٹوتی کرتا تھا۔ یہ امانت میں خیانت ہے جو میں برداشت نہیں کرسکتا اور اب کئی ماہ سے اپنے بیٹے سے میری بات چیت بند ہے۔ میں نے اس کو ان اخلاق کی تعلیم نہیں دی تھی۔ شرافت اور احتساب ِ نفس کی ایسی مثالیں اب کہاں ہیں؟ میں نے عید سے پہلے اُستاد کو اس کے شاگردوں کیلئے عیدی دے دی۔ ایک شاگرد اس وقت اپنے گاؤں تلہ گنگ چلا گیاتھا۔ اس کو فون کیا کہ یہ تمھاری امانت میرے پاس ہے، تم چاہو تو عید آنے والی ہے، میں یہ ایزی پیسہ سے بھیجوادوں۔ وہ روزانہ کئی اخبارات پڑھتے اور صبح سے شام تک عوام اور خواص کی باتیں سنتے اور تجزیہ کرتے رہتے تھے۔ اس لیے ان کی معلومات اور احساس لاجواب تھا۔ معلومات تو بہت سوں کو ہوتی ہیں مگر درد مندی اور دلسوزی تو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ میرا ان کے پاس آنا جانا کالج کے زمانے سے تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ فلاں فلاں بڑا سیاستدان اور جج بھی ان کے پاس آتے ہیں۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ ان بڑے افسران سے کیا وہ کسی کا کام بھی کراتے ہیں؟کہا، صاحب، میں غلط لوگوں کے ساتھ راہ ورسم نہیں رکھتا۔ میں سفارش پر بھی یقین نہیں رکھتا، میں خود ایک محنت کش انسان ہوں اور دوسروں کو بھی چور دروازوں کی بجائے محنت، مشقت اورلگن کی نصیحت کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری کسی سفارش سے کسی حقدار کا حق مارا جائے۔ اپنی بیٹی کو ایم اے کرایا اور پھر اپنی بساط سے بڑھ کر اس کے ہاتھ پیلے کیے۔ خواتین کی ملازمت پرکہا کہ بیٹی کی اپنی مرضی ہے مگر تعلیم صرف ملازمت کیلئے نہیں ہوتی، اس سے عقل وشعور میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان کی ایک شخصیّت بنتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم تعلیم کے بعد صرف سرکاری نوکری ڈھونڈتے رہیں۔ ان کی دکان پر وقت کی پابندی بہت ہوتی تھی۔ میں اے ایس پی سے ڈی آئی جی بنا مگر ان کی دکان پر اپنی باری کیلئے قطار میں بیٹھا انتظار کرتا تھا۔ اس نے کہا، صاحب، ناراض نہ ہوں، انسان ہم سب برابر ہیں، ہم سب کا وقت قیمتی ہے۔ آپ چاہیں تو آپ کے بال بنوانے میں چھٹی کے دن آپ کے گھر آسکتا ہوں مگر یہاں پر آپ کو اپنے نمبر کا انتظار کرنا پڑے گا۔ مجھے اس کی یہی ادا پسند تھی۔ آج اس کی فاتحہ پڑھنے گیا تو اس کے شاگرد مجھ سے لپٹ کر زاروقطار روئے اوراتنا روئے کہ میں بھی اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکا۔ ایک نے کہا، سر آپ وہ انسان ہیں جس کے بالوں کی استاد نے آخری کٹنگ کی تھی۔ اس کے بعد وہ بیمار ہوئے اور ہسپتال میں جان دے دی۔ پتہ نہیں ہمارے سکول کالج کے اساتذہ کے مرنے پر کوئی اتنا روسکتا ہے جتنا استاد سعید کے شاگرد اس کیلئے روئے۔ پشاور نے ایک بڑا پیارا، مخلص، شریف اور عظیم انسان کھو دیا۔ کیا خوبصورت اور نفیس انسان تھے۔ اپنے اردگرد نظر ڈالئے۔ اِیسے ہی عظیم انسان اس معاشرے کی زینت ہیں۔ ان کی قدر کریں۔ حق مغفرت فرمائے۔ رہے نام اللہ کا۔