تعلیم کی پکار ان سنی ہو گئی؟

زبانی کلامی حد تک ملک کی تمام تر سیاسی جماعتوں کے اکابرین اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم ہی ترقی کی حقیقی بنیاد ہے‘ مطلب تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں اس میں تربیت کو بھلا دیتے ہیں ‘حالانکہ تربیت کے بغیر تعلیم اور حکمت کے بغیر تربیت ادھوری اور نامکمل ہوتی ہے ‘جہاں تک تعلیم کی مسلمہ اہمیت تسلیم کرنے کی بات ہے یقیناً یہہ قابل تعریف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ترقی اور پیش رفت کے لئے تو پیسہ چاہئے مگر شومئی قسمت کہ جب پیسے کی بات آجاتی ہے تو پھر تعلیم کو تمام زمروں اور ترجیحات سے نکال کر طاق نسیان میں رکھا جاتا ہے یہ دور کی یعنی ماضی بعید کی بات نہیں بلکہ ابھی گزشتہ ایک عشرے سے اگر ایک جانب مہنگائی یعنی اخراجات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب تعلیمی بجٹ بڑھانے کی بجائے مسلسل کٹوتی سے دوچار نظر آرہا ہے ‘خیبرپختونخوا کی دوچار پرانی یونیورسٹیوں کی حالت تو اس حد تک ابتر ہو چکی ہے کہ غیر متعلقہ یعنی اخراجات کیلئے ممنوعہ اکاﺅنٹس بھی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے خالی ہو رہے ہیں جبکہ ساتھ ہی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے مگر ریاستی یا حکومتی بجٹ کا حجم دیکھئے؟ ملک بھر کے اساتذہ کی فیڈریشن گزشتہ کئی مہینوں سے تعلیمی بجٹ 500 بلین تک بڑھانے جبکہ پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ صوبائی حکومت سے صوبے کی 32 یونیورسٹیوں کے لئے نصف بجٹ یعنی 50 ارب مختص کرنے کا مطالبہ دوہرا رہے ہیں مگر تاحال شنوائی نہ ہو سکی اس ضمن میں حکومتی رہمناﺅں اور حکام کو کئی خط بھی لکھے گئے مگر نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے ایسے میں ان جامعات کے ریٹائرڈ ملازمین جن میں سابق وانس چانسلر‘ ڈینز ‘چیئرمین اور سبکدوش افسران شامل ہیں حکومت اور جامعات کی موجودہ انتظامیہ سے یونیورسٹیوں کی سینٹ اور سنڈیکیٹ میں قانونی یا قانون ساز باڈیز میں نمائندگی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں اس بابت تو فی الوقت کچھ کہنا غیر ضروری اور قبل ازوقت ہوگا البتہ یہ قیاس آرائی کی جاسکتی ہے کہ اگر حکومت نے اپنے 2016ءکے جامعات ماڈل ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے یونیورسٹی کے غیر تدریسی ملازمین اور طلباءکی نمائندگی کا مطالبہ پورا کر دیا تو ممکن ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کو بھی نمائندگی مل جائے ‘اس وقت کہنے بلکہ یاد دہانی کی ایک بات یہ بھی ہے کہ ان سطور کے لکھنے کے وقت تک بھرتیوں پر عائد پابندی اٹھا لی گئی تھی مگر اب سوال یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ کیڈر کی 30 فیصد سے زائد جو آسامیاں خالی پڑی ہیں‘ انہیں پر کرنا کیسے ممکن ہوگا؟ کیونکہ یونیورسٹیاں تو اس وقت موجودہ 30 فیصد کم ملازمین کو بھی تنخواہ میں دینے کی استطاعت نہیں رکھتیں‘اگر کمی پوری ہو جائے تو اخراجات کہاںسے پورے ہوں گے ‘مطلب ان میں پروفیسر اور افسران بھی تو شامل ہوں گے ‘جن کے لئے ریٹائرڈ سٹاف، گاڑیوں، ڈرائیوروں اور بنگلوں کا انتظام بھی لازمی ہوگا جبکہ تنخواہیں ہزاروں میں نہیں لاکھوں روپے ہوں گی‘ محض یہ نہیں بلکہ صرف پشاور یونیورسٹی سے ہر سال ایک درجن سے زائد پروفیسر اور افسران ریٹائرڈ ہو رہے ہیں ‘مطلب یونیورسٹیاں مالی بحران کے ساتھ ساتھ افرادی قوت کے بحران سے بھی دوچار ہونے والی ہےں‘ یہ تو بھلا ہو ان پروفیسر صاحبان کا جو اپنی تدریسی اور تحقیقی مصروفیات کے ساتھ ساتھ نہایت قلیل معمولی معاوضہ لیکر انتظامی دفاتر بھی چلا رہے ہیں جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف کے کرتا دھرتا اعتراف خدمات کی بجائے آئے روز مخالفت پر اتر آتے ہیں کہ یہ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے ‘میرے خیال میں اگر ایکٹ کی پاسداری کی جاتی تو جامعات مستقبل قریب کی بجائے ماضی قریب میں افرادی قوت اور انتظامی بحران کا شکار ہو کر مفلوج ہو جاتیں ‘قصہ کوتاہ یہ کہ تعلیم کو اہمیت یا ترجیح دیکر اس کا بجٹ بڑھانے کے جو مطالبات تسلسل کے ساتھ ہو رہے تھے وہ یکسر ان سنی ہو گئے اور تعلیم جس تیزی سے روبہ زوال ہے کوئی مانے یا نہ مانے مگر اسے ایک المیہ ہی کہا جاسکتا ہے ‘تعلیمی ابتری کی کڑیوں سے یہ کڑی بھی جڑ سکتی ہے کہ تعلیم کو مکمل طور پر خیرباد کہتے ہوئے صرف جرنل نالج پر اکتفا کرنے کی نوبت کب آئے گی؟ کیونکہ صاحب اختیار اور پالیسی ساز تو یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ارے بھئی جو لوگ ملک کے کام نہیں آتے انہیں تعلیم کیوں دی جائے؟ مطلب گزشتہ ایک عشرے کے دوران بہتر روزگار اور آسائش کی تلاش میں جو تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں ان کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہوگی۔