بچے تو سانجھے ہوتے ہیں 

گزشتہ چند دنوں کے اندر تریچ اپر چترال سے تعلق رکھنے والی بارہ سالہ بچی ہسپتال عملے کی غفلت اور بروقت طبی امداد نہ ملنے سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دکھی انسانیت کے مسیحاؤں کے سامنے دم توڑ گئی۔بچی کے والد کا کہنا ہے کہ ان کی لخت جگر کو پیٹ میں شدید درد کی شکایت تھی۔کئی کلو میٹر کا پہاڑی راستہ طے کرکے اسے تحصیل ہیڈ کوارٹر بونی پہنچایا گیا جو ضلع اپر چترال کا واحد بڑا طبی مرکز ہے۔ہسپتال کے عملے نے انسانی جان بچانے سے ضابطے کی کاروائی مکمل کرنا زیادہ اہم قرار دیا اور بچی کے والد کو ایمرجنسی کے بجائے او پی ڈی چٹ لے کر ڈاکٹر کو دکھانے کا مشورہ دیا۔بچی جان کنی کے عالم میں تڑپ رہی تھی اور مجبور باپ او پی ڈی چٹ لینے کے لئے طویل قطار میں کھڑا رہا۔ہسپتال میں ڈاکٹر، نرسیں اور پیرامیڈیکل سٹاف بھی موجود تھا۔کسی کو جاں بہ لب بچی کی حالت پر ترس نہیں آیا۔

جب ضابطے کی کاروائی مکمل ہوئی۔تب تک ننھی بچی تڑپ تڑپ کر جان دے چکی تھی۔بچی کے والدین اور مقامی لوگوں کے احتجاج پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی اور ایک غیر مقامی اہلکار کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس کا بونی سے موڑکہو ہسپتال تبادلہ کردیا گیا۔ہمارے سرکاری طبی مراکز میں آئے روز اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں سے صرف پانچ دس فیصد واقعات ہی میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ادھر ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی سات سالہ معصوم بچی ماریہ کو لاہور میں زیادتی کے بعد پانی میں ڈبو کر قتل کر دیا گیا۔

بچی کے والدین اور رشتہ دار احتجاج اور آہ و بکا کرتے رہے مگر کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔کہا جاتا ہے کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ماریہ قتل کیس اور ہسپتال میں فوری توجہ نہ ملنے سے جاں بحق ہونے والی بچی کے کیس کی تحقیقات کرنے والوں کوچاہئے تھا کہ مظلومین کو اپنا ہی بچہ سمجھ کر تحقیقات کریں، ذمہ داروں کا تعین کریں اور انہیں قرار واقعی سزا دلوائیں۔مگر ہمارے معاشرے میں مظلوم کی آواز کوئی نہیں سنتا۔بااثر لوگوں سے پوچھنے انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے اور عبرت ناک سزا دینے کا کوئی رواج نہیں۔