پہلی حقیقت : بارہ جولائی تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے خالص مائع زرمبادلہ کے ذخائر 9.4 ارب ڈالر تھے۔ دوسری حقیقت: اگلے پانچ سالوں میں‘ ہماری مجموعی مالی ضروریات 123 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ تیسری حقیقت: یہ کافی عدم مساوات ایک اہم بیرونی فنانسنگ چیلنج کی نشاندہی کرتی ہے۔پاکستان کا بیرونی قرض بنیادی طور پر چار اجزا¿ پر مشتمل ہے۔ کثیر الجہتی‘ دوطرفہ‘ بانڈز اور بینکوں کے تجارتی قرضے۔ مجموعی بیرونی قرضوں کا تقریباً چالیس فیصد یا پچپن ارب ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی)‘ عالمی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک (آئی ڈی بی) جیسے کثیر الجہتی اداروں کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پر واجب الادا ہے جن پر 7.6 ارب ڈالر کا قرض ہے۔ ان اداروں کی نوعیت اور ان کے ساتھ پاکستان کی جاری مصروفیات کو دیکھتے ہوئے‘ اس قرض کا ایک اہم حصہ پالیسی کی مسلسل تعمیل پر منحصر ہے۔بیرونی قرضوں کا چالیس فیصد دو طرفہ ہے‘ جو بنیادی طور پر چین‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے ہے۔ کثیر الجہتی قرضوں کی طرح‘ ہماری خارجہ پالیسی کو قرض دہندگان ممالک کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا قرضوں کے رول اوور حاصل کرنے کے لئے اہم ہے۔ مزید برآں پاکستان کے بین الاقوامی بانڈز اور یورو بانڈز کی مجموعی مالیت 8 ارب ڈالر ہے جبکہ کمرشل بینکوں کا قرضہ بھی آٹھ ارب ڈالر ہے۔ یہ قرض مارکیٹ کے خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں کیونکہ ادائیگی اور ری فنانسنگ سرمایہ کاروں کے اعتماد اور مارکیٹ کے موجودہ حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کو مسلسل بیرونی فنانسنگ کی ضرورت پڑ رہی ہے اور آمدنی اور ادائیگی کے درمیان ایک قسم کا خلا ءموجود ہے‘ جس کی متوقع فنڈنگ کی ضروریات مستقبل قریب میں ڈالر کی قدر میں اضافہ کر سکتی ہے۔ توقع ہے کہ تقریباً 90 فیصد بیرونی ادائیگیوں کا انتظام رول اوورز کے ذریعے کیا جائے گا لیکن بیرونی قرضوں کی پائیداری کو برقرار رکھنے کے لئے کم از کم پندرہ ارب ڈالر کی فنڈنگ کی کمی دور کرنا ہوگی۔چین کا ایک کھرب ڈالر کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی)‘ جس میں سے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) بھی شامل ہے اور مجموعی طور پر ’بی آر آئی‘ چھ اقتصادی راہداریوں پر مشتمل ہے‘ جسے فی الوقت مالی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 750 ارب ڈالر کی بی آر آئی سرمایہ کاری بحران سے گزر رہی ہے جس کی وجہ سے منصوبوں کی تکمیل کے عمل کی رفتار کم ہو گئی ہے۔ بیرونی فنانسنگ کے اِس بڑے خلا ءکو پر کرنے کے لئے قرضوں کی واپسی اور نئے سرمائے کی آمد کی ضرورت ہے۔ اگرچہ بیجنگ قرضوں کی مدت میں توسیع کر سکتا ہے لیکن موجودہ ”خلائ“ کو پر کرنے کے لئے نئی فنانسنگ پر انحصار کرنا یا اُس کی راہ دیکھنے کے علاو¿ہ کوئی صورت نہیں رہی۔ یقینی طور پر پاکستان کو پیچیدہ جغرافیائی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ایسی حکمت عملی وضع کرنی ہے جو دور اندیشی اور سفارتی مہارت پر مبنی ہو۔ پاکستان کے لئے معاشی استحکام کی جستجو ایک نہ ختم ہونے والا سفر دکھائی دے رہا ہے جبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ مالی لائف لائنز کو محفوظ بنایا جائے۔ ایک عرصے سے پاکستان کو درکار مالی استحکام کے لئے مشرق و مغرب پر انحصار کیا جا رہا ہے تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی ترجیحات کو طے کئے بغیر مالی مفادات کا حصول کر سکتا ہے؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)