اتوار اکیس جولائی کو ایک بج کر چھیالیس منٹ پر صدر بائیڈن نے اپنے ایکس(سابقہ ٹویٹر) اکاؤنٹ کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ وہ صدارتی مقابلے سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ صدر بائیڈن اس وقت کووڈ کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے اپنے گھرمیں چھٹیاں گذار رہے تھے۔ان کے اس فیصلے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبروں کی ایک بڑی تعداد نے سکھ کا سانس لیا۔ ستائیس جون کو ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ صدارتی مباحثے میں صدر بائیڈن نے جس مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اس کے بعد ان کی اپنی جماعت کی سیاسی اشرافیہ کو یہ یقین ہو چکا تھا کہ وہ نومبر 2024ء میں ہونے والا صدارتی مقابلہ نہیں جیت سکتے۔ نصف صدی پر محیط جو بائیڈن کے سیاسی کیرئیر کا یہ مشکل ترین فیصلہ تھا۔ چوبیس جولائی کو اس فیصلے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جمہوریت کا دفاع ان کی ذاتی خواہشات سے زیادہ اہم ہے۔اکیس جولائی کو اس فیصلے کے اعلان سے کچھ پہلے انہوں نے نائب صدر کاملہ ہیرس کو فون پر بتایا کہ وہ انہیں اپنی جگہ ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی امیدوار نامزد کررہے ہیں۔ کاملہ ہیرس کے لئے اس سے بڑی خوشخبری کیا ہو سکتی تھی کہ انہیں ڈیمو کریٹک پارٹی کا لیڈر منتخب کر لیا گیا تھا۔اب وائٹ ہاؤس ان کی راہ دیکھ رہا تھا لیکن اس منزل تک پہنچنے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ کچھ اور رکاوٹیں بھی حائل تھیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں نوجوان‘ با صلاحیت اور جوشیلے لیڈروں کی کمی نہ تھی۔ ایک رائے یہ بھی تھی انیس اگست کو شکاگو میں ہونیوالے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں صدارتی امیدواروں میں کھلا مقابلہ ہونا چاہیے اس کے بعد جو بھی Delegates یعنی نامزد نمائندوں کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل کر لے‘وہی پارٹی کا متفقہ صدارتی امیدوار ہو گا۔ اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی میں نامزد نمائندوں کی تعداد 4696 ہے اور کسی بھی صدارتی امیدوار کو کامیاب ہونے کے لئے 1975 ڈیلی گیٹس کی حمایت درکار ہے۔ یہ کھلا مقابلہ ایک ایسا منظر نامہ تھا جو ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر لیڈر وں کو قبول نہ تھا۔ انہیں اس میدان جنگ میں پارٹی تقسیم ہوتے ہوئے نظر آ رہی تھی۔ وہ پہلے بھی یہ بھیانک خواب دیکھ چکے تھے اس لئے وہ اس جھمیلے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے۔ کاملہ ہیرس نے ان کی یہ مشکل حل کر دی۔ صدر بائیڈن کی طرف سے نامزدگی کا اشارہ ملتے ہی نائب صدر نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ان تمام سینیٹروں اور گورنروں کو فون کیا جو صدارتی امیدوار بننا چاہتے تھے اور ان سے اپنی حمایت کی درخواست کی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کاملہ ہیرس نے بائیس جولائی کے دن دس گھنٹے میں سو سے زیادہ اہم شخصیتوں سے فون پر رابظہ کیا۔ یہ ان کی انتخابی مہم کا آغاز تھاجو بڑا کامیاب رہا۔ ان کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ صدر امریکہ بننے کا خواب دیکھنے والا ہر شخص جانتا تھا کہ اوپن کنونشن میں ایک زبردست مقابلے کے بعد ہی پارٹی کا امیدوار منتخب ہو سکتا تھا۔ اس میدان میں کامیابی کا امکان اس لئے کم تھا کہ صدر بائیڈن کاملہ ہیرس کو اپنا جانشین مقرر کر چکے تھے اور روایت کے مطابق اس کے بعد ڈیلی گیٹس کی اکثریت نے اپنے سربراہ کے فیصلے کو قبول کرنا تھا۔ صدر بائیڈن کاملہ ہیرس کے علاوہ کسی بھی دوسرے لیڈر کو نا مزد کر سکتے تھے مگر ایساکرنے میں تین قباحتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ ہر امریکی صدر اپنے نائب کے طور پر کسی ایسے شخص کو چنتا ہے جوکسی ایمر جنسی کی صورت میں صدر بننے کی صلاحیتیں رکھتا ہو۔ جو بائیڈن اگر کاملہ ہیرس کو اپنا جانشین منتخب نہ کرتے تو یہ سوال پیدا ہو جاتا کہ کیا انہیں اپنے نائب صدر کی صلاحیتوں پر اعتماد نہ تھا۔ دوسری قباحت یہ تھی کہ ڈیموکریٹک پارٹی میں لاکھوں سیاہ فام خواتین کا ایک ایسا گروپ موجود ہے جو کاملہ ہیرس کا حمایتی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کسی بھی صورت میں اس گروپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ کاملہ ہیرس کو نظر انداز کرنے میں تیسری قباحت یہ تھی کہ سیاہ فام نوجوان صدر بائیڈن سے بدظن تھے اوران کا رحجان ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف بڑھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ان تین وجو ہات کی بنا پر کاملہ ہیرس کا ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی امیدوار بن جانا نوشتہ دیوار تھا۔یہ بات بھی اب طے ہو چکی ہے کہ کاملہ ہیرس نے شکاگو کنونشن سے پہلے ہی 1975ء سے زیادہ ڈیلی گیٹس کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ ان کی اس کامیابی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈیمو کریٹک پارٹی اپنے صدارتی امیدوار پر نہ صرف متفق ہے بلکہ وہ اس غرض سے ایک بھرپور انتخابی مہم چلانے کے لئے بھی تیار ہے۔ دوسری طرف ری پبلکن پارٹی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس پہنچانے کے لئے پوری طرح متحد ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک آزمائے ہوئے تجربہ کار لیڈر ہیں۔ مگر کاملہ ہیرس ایک اچھی انتخابی مہم چلانے اور ایک شعلہ بیان مقرر ہونے کے باوجود نا تجربہ کار سمجھی جاتی ہیں۔ میڈیا ان پر یہ اعتراض کر رہا ہے کہ انہوں نے 2020ء میں اپنی صدارتی مہم اتنے بھونڈے انداز سے چلائی تھی کہ انہیں بہت جلد اس مقابلے سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ ان پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ وہ سان فرانسسکو کی لبرل اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہیں اور اس اعتبار سے ان کے لئے Swing States کے قدامت پسند ووٹروں کی حمایت حاصل کرنا نہایت مشکل ہو گا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا طرفدار میڈیا اس خدشے کا اظہار بھی کررہا ہے کہ کاملہ ہیرس خارجہ پالیسی میں زیادہ تجربہ نہیں رکھتیں اور عالمی سٹیج پر انہیں اپنا مقام بنانے میں کافی وقت لگے گا۔ اس کے جواب میں کاملہ ہیرس کے حمایتی یہ کہہ رہے ہیں کہ نائب صدرنے گذشتہ چار سال میں بہت کچھ سیکھا ہے اور ان کے ناقدین ان کی صلاحیتوں کو بے جا طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔