معیار تعلیم

احسن اقبال کی سربراہی میں پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن پرفارمنس انڈیکس (ڈی ای پی آئی ایکس) جاری کی ہے۔ مذکورہ جائزے (ڈی ای پی آئی ایکس) ایک جامع مطالعے پر مبنی ہے جو پاکستان کے 134اضلاع میں تعلیمی نظام کی کارکردگی کی پیمائش اور تشخیص کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ پانچ کلیدی شعبوں (ڈومینز) کا مطالعہ کرتا ہے جس میں گورننس اینڈ مینجمنٹ، لرننگ، شمولیت (ایکویٹی اور ٹیکنالوجی)، انفراسٹرکچر اور رسائی، اور پبلک فنانسنگ شامل ہیں۔ ہر ڈومین مخصوص پیرامیٹرز اور اشارے کا احاطہ کرتا ہے جو اجتماعی طور پر تعلیمی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ فراہم کرتے ہیں تاہم صرف ہر ضلع کی کارکردگی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے، فارمولوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا اور ان کی اہمیت کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے سابق چیئرمین طارق بنوری نے کئی اہم سوالات اٹھائے ہیں جیسا کہ مذکورہ پانچ اعشاریئے (انڈکس) کے تحت جمع ہونے والے اعداد و شمار کیا واقعی معنی خیز ہیں یا ان کے ذریعے کم سنگین حقائق پیش معلوم ہوتے ہیں؟ مثال کے طور پر گورننس انڈیکس پر غور کریں۔ اس کا ایک اشارہ یہ ہے کہ کیا اساتذہ کلاس رومز میں جاتے ہیں۔ کیا اس اشارے کا زیادہ جامع انداز میں جائزہ لینا ضروری نہیں؟ مزید برآں اس کا کیا مطلب ہے کہ اسلام آباد نے گرین ریٹنگ حاصل کی اور انڈیکس میں ساٹھ فیصد سے زیادہ اسکور کرنے پر ہائی پرفارمنس کیٹیگری میں اسے رکھا گیا؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قابل قبول ہے کہ اگر اساتذہ صرف ساٹھ فیصد وقت کلاس میں حاضر ہوں یا صرف ساٹھ فیصد اساتذہ تدریس کریں یا یہ کہ ساٹھ فیصد نتائج حاصل ہوتے ہیں؟ یہ تجزیہ سطحی اور غیر واضح لگتا ہے۔ وسیع بنیادوں پر صنفی مساوات کے اہداف اور تعلیم تک رسائی کے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے سے نادانستہ طور پر زیادہ پیچیدہ مسائل پر پردہ پڑ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مختلف آبادیاتی گروہوں کے درمیان تعلیمی تجربات میں عدم مساوات اور نصاب میں ایسی خامیاں موجود ہیں جو ثقافتی اور لسانی لحاظ سے متعلقہ مواد کو شامل کرنے میں ناکام رہتی ہیں، خاص طور پر جن کا تعلق پسماندہ آبادیوں سے ہو۔ ”انفراسٹرکچر اور رسائی“ سکولز کی دستیابی اور فاصلے کی پیمائش کرنے والے پیرامیٹرز کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور یہ ترجیح کافی حد تک جائز بھی ہے تاہم صرف رسائی ہی کافی نہیں ہو گی بلکہ نقل و حرکت کے وسائل کی دستیابی اور حفاظت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کیونکہ دور دراز علاقوں میں صرف شاہراو¿ں کا ہونا اور تعلیمی اداروں کا قیام ہی کافی نہیں ہوتا۔ طالب علموں کی شرکت میں سکول نہ جانے والے بچوں (او او ایس سی) کا شمار ایک اہم اشارہ ہے یہ تعلیمی نظام میں شمولیت اور اس تک رسائی کی عکاسی کرتا ہے لیکن اِس سے تعلیم کا معیار متعین نہیں ہوتا۔ جن اضلاع میں ’او او ایس سی‘ کی شرح کم ہے وہاں سہولیات کا ناکافی ڈھانچہ اس کے لئے ذمہ دار ہے۔ ڈی ای پی ایل ایکس کے ”پبلک فنانسنگ“ ڈومین میں‘ ایک ایسا ضلع جس کا بجٹ بہت کم ہو لیکن وہ اپنے بجٹ کا ساٹھ فیصد تعلیم کے لئے مختص کر سکتا ہے۔ تعلیم کی کارکردگی سے متعلق اعشاریئے (انڈیکیٹر) کسی ضلع کی تعلیمی کارکردگی جانچنے کے لئے کافی نہیں کیونکہ ان کے ذریعے کسی ضلع کے زمینی حقائق بالخصوص اُس کی دوسروں سے مختلف ضروریات یا چیلنجز ہو سکتے ہیں۔ تعلیم سے متعلق پورے ملک کے لئے ایک جیسی پالیسی اور اقدامات وضع کرنے یا کسی خاص زاویئے سے جانچ پڑتال سے نتائج اخذ کرنا کافی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ کسی ضلع میں طلبہ کی تعداد‘ غربت کی شرح یا موجودہ بنیادی ڈھانچے میں کمی بیشی پر نگاہ رکھی جائے اور ہر ضلع کی منفرد تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عبد الکمال۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)