ریلوے مسافروں کیلئے کھانا

روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے‘ قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ریل کے سفر کی روداد میں ٹرین کے اندر کھانے کے پرانے وقتوں کے انتظام پر بتاتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ پرانے زمانے میں‘ انگریزوں کے دور میں مسافروں کے کھانے کا کیا انتظام ہوتاتھا؟ جواب ملا‘ کھانے کے وقت گاڑی اسٹیشن پر رک جاتی تھی وہاں ایک یورپین سٹائل ریفریشمنٹ روم ہوتا تھا لوگ اتر کر اور وہاں بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا کھانے کا اتنا اہتمام؟ اپنے مخصوص لہجے میں بولے‘ ہاں جی‘ کھانا کھانے کیلئے تو سارا کام ہے ‘پیٹ کیلئے ہی تو آدمی سارا کام کرتا ہے جب پیٹ راضی نہیں ہوگا تو کیا فائدہ پھر‘ ان کا حکم تھا کہ جو لیڈیز ماں بننے والی ہوں یا بیمار ہوں ان کو ٹرین میں کھانا دیاجائے ‘باقی تمام لوگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھائیں اور اس کے لئے گاڑی آدھا گھنٹہ کھڑی رہتی تھی‘ میں نے ان سے پوچھا کہ اس وقت مسافروں کو کیسا کھانا پیش کیا جاتاتھا؟ سات قسم کا کھانا ہوتا تھا۔ سوپ‘ سلاد‘ سائیڈڈش‘ مین کورس‘ پڈنگ‘ چیز بسکٹ‘ کافی ‘سب چیزیں ہوتی تھیں‘ ہندوﺅں کے لئے دال سبزی ہوتی تھی اور جو گوشت کھاتے تھے ان کیلئے گوشت ہوتا تھا‘ سبزی گوشت اور خالی گوشت‘ وہ زمانہ بھی سستا تھا ‘گوشت بھی سستا تھا اس وقت تین آنے سیر گوشت تھا آج کل کھانے کی ایک ٹرے کی قیمت کتنی ہے؟ تیس روپے‘ تھرٹی روپیز اور اس وقت کتنی تھی؟ دو روپیہ‘ میں یہ باتیں سن کر حیران تھا ‘میں نے پوچھا آج کے مقابلے میں آپ کا کیا خیال ہے‘ وہ کیسا وقت تھا‘ وہ اچھا وقت تھا اب تو جو آدمی کھانا کھاتا ہے وہ گالی نکالتا ہے‘ کیوں نکالتا ہے گالی؟ کیونکہ اس کو کھانے کو اچھا نہیں ملتا‘ مگر اس میں آپ کا تو قصور نہیں‘ ہمارا قصور نہیں‘ ہر آدمی ہر وقت پیسہ پیسہ کرتا جاتا ہے‘ پیسے کے پیچھے مرتا جاتا ہے‘ وہیں قریب بیٹھے ہوئے دوسرے بیروں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی ‘میں نے محمد بشیر سے کہا کہ اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں کب تک یہ کام کریں گے؟ جب تک زندگی ہے کام کرنا ہی پڑتا ہے‘ روٹی تو کھانی ہے‘ کام کرے گا تو کھائے گا‘ آپ بوڑھے ہو رہے ہیں اب آپ کو آرام کرنا چاہئے‘ آرام کرنے سے تو آدمی بے کار ہوجاتا ہے۔شالیمار ایکسپریس چلی جارہی تھی بیروں سے میری گفتگو جاری تھی کہ اتنے میں بوفے کار کے نگراں سلیم خان صاحب آگئے میں نے ان سے کہا کہ آج تو نشستوں کی پشت پر چھوٹی چھوٹی میزیں اڑا کر ان کے اوپر کھانا رکھا جارہا ہے مجھے یاد ہے تیز گام میں نہایت شان دار ڈائننگ کار لگا کرتی تھی ‘ ہم لوگ اچھا لباس پہن کر اس میں جاتے تھے ‘صاف میزوں‘ ستھرے میز پوشوں اور گل دانوں والی میزوں پر سفید وردی والے بیرے کھانا لگایا کرتے تھے اور جی خوش ہوتاتھا ‘وہ سب کہاں چلا گیا؟ سلیم خان صاحب بتانے لگے جی ہاں اس وقت یہ تھا کہ ڈائننگ کار ہوتی تھی بیٹھنے کا انتظام ہوتا تھا اور اس میں ڈونگا ڈش سروس ہوتی تھی اور مسافر جتنا کھانا لینا چاہے وہ لے سکتا تھا ہمارے دوچار آدمی اور ساتھ لگ جاتے تھے کوئی پسنجر کو سلاددکھا رہا ہے کوئی چاول پاس کرا رہا ہے‘ کوئی سوپ پاس کرا رہاہے کوئی بریڈ بٹرپاس کرا رہا ہے کوئی رائتہ چٹنی دے رہا ہے اب تو کچن کار لگے ہوئے ہیں اب تو یہ ہے کہ ایک عام کھانا جو ہم بناتے ہیں وہ مسافروں کو ہم کمپارٹمنٹ میں دیتے ہیں لیکن اگر کوئی مسافر ہمیں کہتا ہے کہ ہمیں دال کھانی ہے یا سبزی بنا دیں یا بھجیا کھانی ہے یا ہمارے لئے کڑھائی کردیں یا چکن جال فریزی بنادیں یا ہمیں چکن کڑھائی بنادیں تو ہم کچھ وقت لے کر بنا دیتے ہیں‘ جی ہاں اب بھی بناتے ہیں۔ اب میں نے سلیم خان صاحب سے پوچھا کہ یہ گاڑی میں سوار سارے ہی مسافر شکایت کیوں کرتے ہیں کہ کھانا مہنگا اور ناقص ہے؟ جواب ملا اس کے متعلق تو جی یہ ہے کہ اس میں مہنگائی کا بھی بڑا دخل ہے کیونکہ ہمارے جو نرخ ہیں وہ ویسے ہی جوں کے توں ہیں جو چار سال سے آٹھ سال سے چلے آرہے ہیں جب کہ مارکیٹ میں نرخ دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں جو چیز ایک روپے کی ملتی تھی وہ پانچ روپے کی ملتی ہے چینی ہے‘ گھی ہے‘ مرغی ہے‘ انڈا ہے ہر چیز مہنگی ہے لیکن ہمارے لئے جو نرخ مقرر کئے گئے تھے ہم ان کے پابند ہوتے ہیں ہمیں حکم ہے کہ اسی پرانے نرخ سے بیچیں‘ یہ تھے میری شالیمار ایکسپریس کے باورچی خانے کے نگران سلیم خان صاحب‘ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مسافروں کی جھوٹی پلیٹیں اور بچی کھچی روٹیوں کے ٹکڑے واپس آنے لگے بیرے اپنی اپنی صافیاں سنبھالے اپنی کمائی کے نوٹ گننے لگے حساب کتاب ہونے لگا اور فضا ٹھنڈے سالن کی مہک سے بھرنے لگی تو میں بوفے کار سے نکل آیا۔