نصف صدی کا قصہ ہے

ابوالاثرحفیظ جالندھری نے اپنے ادبی سفر کے پچاس سال مکمل کرنے کے بعد فخر ومسرت کے ساتھ غزل کا ایک شعر کہا‘ انہوں نے کہا تشکیل وتکمیل فن میں جوبھی حفیظ کا حصہ ہے،نصف صدی کا قصہ ہے دو چاربرس کی بات نہیں۔پشاور کے قدیم باسی پشوری کہلاتے تھے وہ جہاں بھی گئے جہاں بسے پشاور کو نہیں بھولے‘ان سے جب بھی جہاں بھی بات ہوتی ہے باتوں سے پشاور کی خوشبو آتی ہے،ہرپشوری صدیوں کی نہیں تو نصف صدی کی کہانی ضرور سناتا ہے اور سننے والے میں بھی نصف صدی سے زیادہ کی تاب وتواں یا طلب نہیں ہوتی ہم سماجیات کو سننے کے عادی ہیں‘ آثاریات کو سننے کی تاب نہیں رکھتے‘پرسوں ہم آسامائی دروازے سے ہوکر اندرشہر میں آئے توچوک یادگار کی طرف سے ایک پُرانا شناسا آتا ہوادکھائی دیا‘بائیں طرف پختہ چائے فروش کی دکان کا سماوار نظر آرہا تھا‘ دکان میں فرشی نشست تھی‘ ہمارے ہاتھوں میں تہہ کئے ہوئے اخبارات تھے‘ہم نے اخبارات کو ایک طرف رکھا اور چائے آنے سے پہلے اُس دور میں پہنچ گئے جب پشاور میں تفریح کا ذریعہ صرف سنیما گھر ہوا کرتے تھے‘سب سے زیادہ رش فلم کے ٹکٹ کی کھڑکی پرہوتی تھی بلیک مارکیٹ کی ترکیب کا دوسرا کوئی مطلب نہیں تھا‘ فلم کا ٹکٹ بلیک میں ملتا تھا سب سے بااختیار آدمی سنیما کاگیٹ کیپر ہوتا تھا‘ لوگ تفریح کے لئے جوق درجوق سنیما کارخ کرتے تھے‘سنیما ہالوں پرسنسرشپ لگی توشہر کے فلم بینوں نے جمرود کا راستہ اختیار کیا‘گروپوں اور ٹولیوں کی شکل میں جمرود جاکر انڈین اور دوسری غیر ملکی فلموں دیکھنے لگے،اس کے بعد وی سی آر کو شہر لایا گیا تو”جم تہ زو“میں کمی آئی،وی سی آر کانام مشہور ہوا پھر خدا کاکرنا ایسا ہوا کہ سمارٹ فون کازمانہ آیا اورپشاور کاچہرہ ہی بدل گیا،تفریح ہرایک کے ہاتھ میں آگئی ہم نے کالج میں پڑھا تھا”رواج عام کاراجا جب ہولی کھیلتا ہے‘ شرفاء سرخ پانی کے چھینٹے سفید کپڑوں پرلینا عین سعادت سمجھتے ہیں“سمارٹ فون بھی راجا کے ہاتھ میں ہولی کا رنگین پانی ہے،ہواجب اُڑتی ہے تو اس کے چھینٹے شرفاء کے کپڑوں پرڈالتی ہے‘اب جوہوا چلی ہے کسی کی سفید پوشی محفوظ نہیں رہی،چنانچہ سنیماگھر ویراں ہوگئے ”جم تہ زو“ کازمانہ بیت گیا۔ہم نے کڑک چائے کا لطف اُٹھاتے ہوئے پشاور کی سماجی روایات میں شہرکی پُرانی مساجد کا ذکر چھیڑا نمک منڈی میں تالاب والی مسجد،جی ٹی روڈ پرنوشوبابا کی مسجد اور کابلی دروازے کی چڑھائی پر طورہ قل بائے کی مسجد کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔مسجد مہابت خان اور قاسم علی خان کااپنا مقام ہے‘تبلیغی جماعت کا پہلا مرکز گنج کی پرانی مسجد میں ہوا کرتا تھا۔وہاں سے سخی چشمہ کی مسجد میں آیا‘ پھر حسن گڑھی میں نیامرکز تعمیر ہوا۔جماعت اسلامی کادفتر پشاور صدر میں ہمدرد دواخانہ والی گلی میں تھا،جی ٹی روڈ پرنیا مرکز تعمیر ہونے کے بعد وہاں منتقل ہوا،جمعیتہ العلمائے اسلام کامرکز دارالقراء نمک منڈی میں تھا‘ وہاں سے رنگ روڈ منتقل ہوا،اُس دور کے علمائے کرام کے ہاں سادگی ملتی تھی بڑے بڑے علماء سائیکل پر گھومتے تھے‘1972ء میں مولانا مفتی محمود صوبے کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے توانہوں نے ویگن اور فلائینگ کوچ میں سفر کرنے کا سلسلہ ترک نہیں کیا مگر چند دنوں میں عملی طورپر یہ بات سامنے آئی کہ سرکاری مصروفیات کے لئے وقت نکالنا پڑتا ہے‘ اس لئے سرکاری موٹر کی سہولت حاصل کرنا بہترہوگا۔پنیالہ ڈیرہ اسماعیل خان میں بڑے بڑے آفیسر اور اخبار نویس مولانا سے ملنے جاتے تو ان کی سادہ زندگی دیکھ کرمتاثر ہوتے تھے کئی ان کے حلقہ بگوش ہوگئے‘ ہم نے جیدعلمائے کرام کوسائیکل پرشہر میں گھومتے ہوئے دیکھا‘سادگی بھی تھی دشمن کا خوف بھی نہیں تھا‘جب سادگی نہ رہی تودشمن کا خوف مسلط ہوا،سکیورٹی گارڈ کی ضرورت پڑگئی یہ ایسا زمانہ تھا جب مقتدیوں پرامام صاحب کا رعب طاری ہوتا تھا‘لوگ ایک دوسرے کو تھانہ،تحصیل،کچہری اور فوجیوں سے نہیں ڈراتے تھے‘بہت تنگ آگئے توکہتے تھے میں استاد جی سے تمہاری شکایت کروں گااور”استاد جی سے شکایت“ پشوریوں کی کارگردھمکی ہواکرتی تھی۔وقت کی کروٹ نے نصف صدی کے اندر پشاور کی کایا پلٹ کررکھ دی وقت کے ساتھ وہ لوگ بھی گئے  ”اب ڈھونڈ انہیں چراخ رخ زیبا لے کر“۔