کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکہ میں ایک ایسا دن انتہائی دلچسپ اور تہوار کی صورت منایا جاتا ہے جس کا تعلق ہمسائے سے ہے‘ اِس قومی تہوار کا نام ”اچھا پڑوسی دن“ ہے جو ہر سال چھبیس ستمبر کو منایا جاتا ہے اور یہ دن امریکہ بھر میں اچھے پڑوسیوں اور مضبوط برادریوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ انیسویں صدی میں امریکہ اور میکسیکو کے درمیان وحشیانہ جنگیں ہوئیں لیکن آج میکسیکو امریکہ کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح امریکہ اور کینیڈا دنیا کی طویل ترین سرحد رکھتے ہیں اور قریبی اتحادی ہیں۔ یورپ، جو کبھی صدیوں کے تنازعات سے تباہ ہو چکا تھا لیکن اب یورپی یونین کی صورت ایک دوسرے سے تعاون کے ذریعے یکسر تبدیل دکھائی دے رہا ہے، یورپ اب امن اور اتحاد کا مینار ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کو بڑے پیمانے پر غلط اقدام کے طور پر دیکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے برطانیہ کو معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘افریقہ میں، وہ ممالک جو کبھی غربت اور افراتفری کا شکار تھے، اب ترقی کی جانب پیش رفت کر رہے ہیں۔ اس کامیابی کا ایک اہم عنصر پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات حل کرنے اور اچھے تعلقات کو فروغ دینے کی صلاحیت ہے‘ جو درپردہ کارفرما رہتی ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین کے پاکستان کے علاو¿ہ اپنے بیشتر ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں۔ اس تنا¶ کے باوجود چین اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ عالمی سطح پر‘ بہت سے ممالک اپنی خوشحالی، امن اور ترقی کے لئے جانے جاتے ہیں اگرچہ ان کامیابیوں کا سہرا اکثر داخلی استحکام‘ قانون کی حکمرانی اور عوام کی ضروریات کو دیا جاتا ہے لیکن اکثر نظر انداز کیا جانے والا عنصر ان ممالک کے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ خوشگوار اور دوستانہ (مثالی) تعلقات ہیں۔جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کی سرحدیں چار ممالک سے ملتی ہیں۔ ان میں سے چین واحد ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے مستقل خوشگوار تعلقات ہیں۔ ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا اور دونوں ممالک کے درمیان مذہبی، ثقافتی، اقتصادی اور سماجی تعلقات ہیں۔ پھر بھی، مختلف غیر متوقع حالات کی وجہ سے، پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات مثالی سطح تک ترقی نہیں کر سکے جیسا کہ امریکہ اور کینیڈا کے درمیان دیکھا جا رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات شروع سے ہی چیلنجوں سے بھرے رہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کو اکثر افغان سرزمین سے جوڑا جاتا ہے۔ دریں اثنا، کشمیر پر بھارت کے ساتھ دیرینہ سرحدی تنازعہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے کے بعد بھی حل نہیں ہو سکے ہیں۔ غیر ریاستی عناصر ہماری سرحدوں کے اندر دہشت گردی کی کاروائیوں کو سرانجام دینے کے لئے ہمارے ہمسایہ ممالک کی سرزمین کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں، جس سے پہلے سے ہی نازک تعلقات مزید کشیدہ ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہمسائیوں کے ساتھ غلط فہمیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھا جائے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا اُور ایسے دانشور شاذ و نادر ہی ملتے ہیں جو تاریخ کو پیش نظر رکھیں۔ پاکستان کے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کی پیچیدگیوں پر غور ہونا چاہئے ایسا کرنا نہ صرف پاکستان کی داخلی سلامتی کے لئے اچھا ہے بلکہ پاکستان کی اقتصادی و معاشی ترقی بھی اس سے حاصل ہو سکتی ہے۔ پاکستان خود کو ایک ہم آہنگ، متنوع، امن پسند اور ہمسایہ ملک کے طور پر پیش کرنے کے لئے ٹھوس منصوبہ تیار کر سکتا ہے۔ اگر اس مقصد و ہدف کے حصول کے لئے بات چیت کے ذریعے تنازعات کو حل کیا جائے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو فروغ مل سکتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارے پیارے پاکستان کو ایشیا میں معاشی طاقت بننے سے نہیں روک سکے گی۔ ”گڈ نیبر ڈے“ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی رہنما ابراہم لنکن کی دانش مندی بطور رہنما اس دن کا محرک ہے جو یہ کہتے تھے ”دشمن کو تباہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُسے دوست بنا لیا جائے۔“ یہ پیغام آج بھی ہمیشہ کی طرح اہمیت کا حامل ہے اور عالمی برادری کو دشمنی پر امن کو ترجیح دینے کی ترغیب دے رہا ہے۔ (مضمون نگار سابق رکن قومی اسمبلی ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)