برصغیر میں فرنگیوں کے دور حکومت میں بعض کئی اچھے دیانتدار اور عوام دوست افسر بھی گزرے ہیں جنہیں مورخ اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں‘رابرٹ سنڈیمن نامی افسر جو بلوچستان میں ڈپٹی کمشنر اور پولٹیکل ایجنٹ رہا عوام میں اتنا مقبول تھا کہ جب اس کا انتقال ہوا تو بلوچی سرداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو بلوچستان میں ہی دفن کیا جائے‘ حالانکہ ان دنوں دوران سروس برصغیر میں کوئی فرنگی اگر فوت ہو جاتا تو اس کے جسد خاکی کی تدفین کے واسطے اسے انگلستان بھجوایا جاتا‘ چنانچہ ان کی خواہش کے احترام میں سنڈیمن کو بلوچستان میں دفن کیا گیا‘ سنڈیمن جتنا ژوب اور کوئٹہ میں مقبول تھا اتنا ہی وہ بلوچستان سے ملحقہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں بھی پاپولر تھا یاد رہے کہ وادی ژوب ایک عرصہ تک فورٹ سنڈیمن کے نام سے جانی جاتی تھی اور وہاں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کا دفتر بھی تھا اور رہائش گاہ بھی‘نہ جانے اس کا نام کیوں بدل دیا گیا۔ اس ملک میں اور بھی تو کئی شہر ہیں جو ان فرنگیوں کے نام پر ہیں کہ جنہوں نے ان کو بسایا تھا جیسے جیکب آباد‘ ایبٹ آباد‘ فورٹ منرو وغیرہ۔لائل پور‘ لارنس پور کے نام بھی البتہ تبدیل کر دئیے گئے‘ ہزارہ کے لوگ آج بھی ایبٹ کی ایبٹ آباد کیلئے خدمات کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں‘ اسی طرح ایک اور فرنگی ڈپٹی کمشنر جس کا نام جان نکلسن تھا‘ اس کی انتظامی صلاحیتوں کو مورخ سراہتے ہیں‘وہ بنوں کا ڈپٹی کمشنر تھا اس کی تقرری سے پیشتر بنوں کا کرائمز ریٹ بہت اونچا تھا پر اس کی حکمت عملی سے بنوں اس کے دور میں امن کا گہوارہ بن گیا تھا‘قیام پاکستان کے بعد بھی اس وقت تک سول سروس میں قابل اور دیانتدار آ تے رہے کہ جب تک ان کی بھرتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی رہی اور اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہ تھی‘ ماضی میں کمشنر اس افسر کو لگایا جاتا کہ جس نے کم ازکم دو اضلاع میں تین سال تک کامیابی سے ڈپٹی کمشنر کی ہوتی اور ڈپٹی کمشنر لگنے سے پہلے یہ دیکھا جاتا کہ جس افسر کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لگایا جا رہا ہے کیا اس نے کم ازکم تین سال تک اسسٹنٹ کمشنری بھی کی ہے کہ نہیں؟۔