جمہوریت کے مقابلے صدارتی نظام سے متعلق راقم الحروف کا مؤقف ٹیکنوکریٹ حکومت کی وکالت کرنا ہے اور اس سلسلے میں کئی مضامین قارئین کی نظروں سے گزرے ہونگے۔ اکثر ایسے نظام کو آمرانہ صدارت سمجھا جاتا ہے جیسا کہ ماضی میں دیکھا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی جمہوری طور پر صدر منتخب نہیں ہوا‘ جو صدارتی جمہوریت کی اہم خصوصیت ہے۔ پاکستان کے پارلیمانی نظام میں سب سے بڑا مسئلہ پارلیمنٹیرینز کی بھیڑچال ہے جو ان میں پائی جانے والی کرپشن ہے۔ منتخب ہونے والے کئی کروڑ روپے انتخابات پر خرچ کرتے ہیں اور بعد میں قومی خزانے سے اربوں روپے واپس وصول کر لیتے ہیں اور یہ تسلسل ایک عرصے سے قائم ہے۔ صورتحال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ جب صدر مملکت کی جانب سے پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے گریجویٹ ڈگری کی شرط متعارف کرائی گئی تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تقریباً 200 ارکان پارلیمنٹ نے جعلی ڈگریوں کا انتظام کیا اور ایسی جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہوئے۔ جب ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے اس بات کا انکشاف کیا تو ایچ ای سی کو تباہ کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ سال دوہزارگیارہ میں راقم الحروف کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست پر سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور حکومت کو ایسا کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ بدعنوانی کے عمل کو روکنے کیلئے پارلیمنٹ کے کردار کو قانون سازی اور نگرانی تک محدود کرنا ہوگا اور پارلیمنٹ کے کسی بھی رکن کو مالی وسائل کی فراہمی (فنڈنگ) فراہم نہیں ہونی چاہئے تاکہ بدعنوانی کے عنصر کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکے۔ ترقیاتی فنڈز منظور شدہ منصوبوں کیلئے بلدیاتی اداروں کو منتقل کئے جائیں تاکہ انہیں حقیقی معنوں میں قومی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا جاسکے۔ حکومت (وفاقی اور صوبائی وزرأ کے ساتھ ساتھ سیکرٹریز) کو ملک کے سائنسدانوں اور انجینئرز پر مشتمل ہونا چاہئے تاکہ پاکستان ٹیکنالوجی پر مبنی مضبوط علمی معیشت بن سکے۔ کیا یہ بات کہنے کی ضرورت ہے کہ چین جیسے ممالک نے میگا کرپشن کیلئے سزائے موت متعارف کرائی ہے۔ متعدد ممالک کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے ٹیکنوکریٹ صدارتی نظام مہارت، استحکام اور پالیسی پر عملدرآمد کے لحاظ سے فوائد فراہم کرتا ہے، خاص طور پر جب اس کا موازنہ پارلیمانی نظام حکومت سے کیا جاتا ہے۔ ٹیکنو کریٹس، تعریف کے مطابق، کسی شعبے سے متعلق خصوصی علم رکھنے والے افراد ہوتے ہیں، ان کی اکثریت معاشیات، سائنس، یا انجینئرنگ جیسے شعبوں کا احاطہ کرتی ہے۔ انہیں ان کی سیاسی وابستگی کے بجائے ان کی قابلیت اور تجربے کی وجہ سے منتخب کیا جاتا ہے اور یہ عمل ملک کو گورننس ماڈل کی طرف جاتا ہے جہاں قومی و صوبائی فیصلے اعداد و شمار، تجربات کے نتائج اور پیچیدہ معاملات کی تفہیم کے ذریعہ کئے جاتے ہیں۔ ٹیکنوکریسی کی کامیابی کی مثال سنگاپور ہے، جہاں ٹیکنو کریٹک حکومت کی قیادت لی کوان یو جیسی شخصیات کر رہی ہیں اور اس قیادت نے ملک کو ترقی پذیر ملک سے عالمی اقتصادی پاور ہاؤس میں تبدیل کر دیا ہے۔ سنگاپور کے رہنماؤں نے مستقل، طویل مدتی ترقی کے حصول کیلئے فنانس، ٹیکنالوجی اور معاشیات میں مہارت پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ صدارتی نظام کی اہم خصوصیت ایگزیکٹو اور قانون ساز شاخوں کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم ہے۔ یہ تقسیم حکمرانی کے زیادہ متوازن نظام کی اجازت دیتی ہے، جہاں صدر پالیسیوں پر عمل درآمد پر توجہ مرکوز کرسکتا ہے جبکہ مقننہ قانون سازی پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ امریکہ میں، یہ علیحدگی کسی بھی ایک شاخ کو غیر متناسب طاقت حاصل کرنے سے روکنے، چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ٹیکنوکریٹ کی سربراہی میں صدارتی نظام تیزی سے فیصلہ سازی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ مستقل پارلیمانی منظوری کی ضرورت کے بغیر، اس نظام میں صدر فوری انتظامی فیصلے کرسکتے ہیں، جو بحران کے وقت خاص طور پر اہم ہوتا ہے۔ ٹیکنوکریٹک نظام اہلیت (میرٹوکریسی) پر زور دیا جاتا ہے۔ قومی و صوبائی رہنما اور فیصلہ ساز سیاسی وفاداری کی بجائے قابلیت کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔ یہ سیاسی سرپرستی کے بالکل برعکس ہے جو اکثر پارلیمانی نظام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مضبوط ٹیکنوکریٹ گورننس والے ممالک نے خاص طور پر تجارت اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں بہتر کارکردگی (مسابقت) کا مظاہرہ کیا ہے۔ جرمنی اور سنگاپور اس بات کی اہم مثالیں ہیں کہ کس طرح ٹیکنوکریٹ قیادت کسی ملک کی عالمی حیثیت کو بہتر بنا سکتی ہے۔ ٹیکنوکریٹک نظام جدت کو فروغ دیتا ہے جس کا ثبوت جاپان کی تکنیکی و صنعتی ترقی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں طویل مدتی سرمایہ کاری کو ترجیح دے کر بہت سے ممالک نے خود کو معاشی طاقت کے طور پر ڈھال لیا ہے۔ سنگاپور، جنوبی کوریا اور جرمنی جیسے ممالک کے تجربات سے یہ بات واضح ہے کہ ٹیکنوکریٹ کی قیادت میں صدارتی نظام ہی اکیسویں صدی کے چیلنجز سے نمٹنے کے خواہاں ممالک کیلئے قابل عمل حل ہے‘ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے اور یہ ہدف حاصل کرنے کیلئے ہمیں تعلیم‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ جدت اور انٹرپرینیورشپ کو اعلیٰ ترین قومی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ اس وقت ملک کو ایماندار، قابل اور دور اندیش قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ ابوالحسن امام)