توانائی کسی بھی ملک کی پائیدار اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گزشتہ چند برس کے دوران موسمیاتی تبدیلی نے سماجی و اقتصادی طور پر ہلچل مچا رکھی ہے۔ پاکستان نے بھی اپنی اقتصادی ترقی کے فروغ اور موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے پائیدار توانائی کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ”گرین انرجی“ کی طرف تبدیلی کا آغاز کیا ہے۔ اِس تبدیلی کے کئی عوامل ہیں جن میں فوسل ایندھن کی بڑھتی ہوئی لاگت، توانائی کی بڑھتی طلب اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لئے عالمی دباؤ جیسے چند بنیادی و کلیدی عوامل شامل ہیں۔پاکستان کی گرین انرجی حکمت عملی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ حکومت نے طویل مدتی توانائی کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ سب سے قابل ذکر اقدامات میں سے ایک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لئے زیادہ فنانسنگ آپشنز متعارف کروانا ہے۔ یہ اقدام شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حکومت نے قابل تجدید توانائی کی تنصیبات کے لئے قرضوں پر شرح سود میں بھی غیرمعمولی کمی کی ہے‘ جس سے چھوٹے کاروباروں اور گھرانوں کے لئے صاف توانائی کی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے دروازے کھل گئے ہیں۔ مالی مراعات کے علاؤہ، حکومت قانونی اصلاحات بھی کر رہی ہے جس سے ماحول دوست (سبز) توانائی کے استعمال کو فروغ ملے گا۔ نیٹ میٹرنگ جیسی پالیسیاں شمسی پینل والے گھرانوں کو اضافی توانائی قومی گرڈ میں واپس فروخت کرنے کے قابل بنائے ہوئے ہے۔ یہ شمسی توانائی میں سرمایہ کاری اُور اعتماد کی عکاسی ہے۔ گرین انرجی سے متعلق حکومتی اقدامات پر نجی شعبے نے بھی فعال اور یکساں عمل درآمد کیا ہے۔ گزشتہ سال تیل کمپنیوں کے ایک کنسورشیم نے پاکستان میں قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کا وعدہ کرتے ہوئے عہدساز قدم اٹھایا اور اب شمسی اور ہوا کی طاقت سے توانائی کے پیداواری منصوبوں میں سرمایہ کاری ہو رہی جو بہتر و صاف اور پائیدار توانائی پیداوار کی طرف منتقلی کی قومی حکمت عملی کے مطابق ہے۔ بالخصوص اگر شمسی توانائی کی بات کی جائے تو پاکستان میں تیزی سے یہ رجحان فروغ پا رہا ہے۔ ملک کا جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ اس میں کافی دھوپ ملتی ہے، جس سے شمسی توانائی کی پیداوار کے لئے یہ مثالی جگہ ہے۔ حال ہی میں، چھتوں پر شمسی نظام کی تنصیب میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں جہاں بجلی کی قلت اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں سنگین مسائل ہیں۔ رہائشی اور کاروباری صارفین دونوں شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔پاکستان میں ونڈ انرجی گزشتہ چند برس میں مقبول ہوئی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں جہاں ہوا کی رفتار زیادہ ہوتی ہے وہاں ہوا سے توانائی کے منصوبے توجہ کا مرکز ہیں۔ ان علاقوں میں ونڈ ڈویلپمنٹ فارمز دیکھے گئے ہیں جو قدرتی گیس اور کوئلے کا صاف متبادل پیش کرتے ہوئے قومی گرڈ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اس کے علاؤہ، شمسی اور ہوا کی مدد سے بجلی کی پیداواری ٹیکنالوجی کی لاگت میں بھی مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ یہ روایتی توانائی کے ذرائع کے ساتھ زیادہ لاگت فراہم کرتے ہیں۔ اس تمام پیش رفت کے باوجود‘ طویل مدتی کامیابی کے لئے پاکستان کی گرین انرجی کی طرف منتقلی سے متعلق متعدد چیلنجوں کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور فی الوقت ملک کو درپیش چند اہم مسائل میں سے ایک فرسودہ توانائی کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔پاکستان کا قومی گرڈ (بجلی کی تقسیم کا نظام) روایتی ہے جو قابل تجدید ذرائع جیسے ہوا اور شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی تغیرپذیر توانائی کی پیداوار کو ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اس سے رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ دوسری جانب اگرچہ سبز توانائی کی حمایت کرنے والی پالیسیاں موجود ہیں لیکن ان کا نفاذ اکثر سست ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، نیٹ میٹرنگ سسٹم، جو شمسی توانائی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کے لئے متعارف کرایا گیا تھا، کو کچھ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کمپنیاں آمدنی کے نقصان سے ڈرتی ہیں کیونکہ زیادہ صارفین توانائی پیدا کرنے والے بن جاتے ہیں۔ یہ مزاحمت قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز کو اپنانے کی رفتار کو سست کئے ہوئے ہیں۔ ایک اور چیلنج مالی رکاوٹ ہے۔ اگرچہ اسٹیٹ بینک کے فنانسنگ آپشنز نے اخراجات کم کئے ہیں لیکن شمسی اور ہوا سے بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کے لئے آلات کی تنصیبات کے لئے پیشگی سرمایہ کاری بڑے منصوبوں کی نسبت چھوٹے کاروباروں کے لئے زیادہ ہے۔ پاکستان کا جغرافیائی تنوع پن بجلی کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ بنیادی طور پر کم استعمال ہوتا ہے۔ شمالی علاقے، ان کے بہت سے دریاؤں اور ندیوں کے ساتھ، بڑے اور چھوٹے دونوں پیمانے پر پن بجلی کے منصوبوں کے لئے بہت زیادہ مواقع فراہم کرتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے، دیہی علاقوں میں چھوٹے پن بجلی گھر تیار کئے گئے جن سے آف گرڈ کمیونٹیز کو صاف توانائی فراہم ہوئی۔ یہ اسکیمیں نہ صرف دیہی توانائی کے بحران سے نمٹنے میں مدد کرتی ہیں بلکہ قومی گرڈ پر دباؤ کو بھی کم کرتی ہیں تاہم، بڑے پیمانے پر پن بجلی کے منصوبے اعلی ابتدائی لاگت اور طویل منظوری کے طریقہ کار کی وجہ سے سست روی کا شکار ہیں۔ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم جیسے بڑے منصوبے مکمل ہونے کے بعد پاکستان کی پن بجلی کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ یہ منصوبے نہ صرف توانائی کا قابل اعتماد ذریعہ ہوں گے بلکہ پانی ذخیرہ کر کے آبی قلت جیسے مسائل بھی حل کرنے میں مدد فراہم کریں گے، جس سے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خشک سالی اور سیلاب کے بڑھتے ہوئے واقعات و سانحات سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مرتضی تالپور۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)