ماضی بعید کی بات نہیں بلکہ ابھی تین عشرے قبل تک یونیورسٹی کیمپس ہی ایک ایسامقام تھا جوکہ وادی پشاور میں ہریالی اور صحت افزاء ماحول کے حوالے سے بطور مثال پیش کیا جاتارہا‘ شوروغل دھوئیں اور ٹریفک کے اژدھام سے محفوظ تھا‘آبادی میں تیزی سے ہونیوالے اضافے کی تلخ حقیقت اپنی جگہ مگر یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ پورے صوبے بشمول قبائلی علاقہ جات جامعہ پشاور واحد بڑی یونیورسٹی تھی‘ طلباء اس وقت بھی تھے‘ پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں‘ رکشہ ٹیکسی کی ضرورت اس وقت بھی تھی مگر اس ضرورت کو ایک قاعدے ضابطے کے تحت پوری کرنا لازمی سمجھا جاتا رہا‘یونیورسٹی کیمپس کا موجودہ حال جس میں بڑی تیزی سے مزید بگاڑ واقع ہو رہاہے بالکل آبیل مجھے مار کے مصداق ہے جس سماں پر دھوئیں اور آلودگی کی تہہ جمی رہتی ہے یونیورسٹی کیمپس بھی اسی کے نیچے واقع ہے‘لہٰذا اگر مزید غفلت برتی گئی تو لاہور‘ ملتان اور پنجاب کے دوسرے بڑے شہروں میں ماحول کی بربادی جس حد تک پہنچ گئی ہے پشاور اور پھولوں اور باغات کے شہر کا منفرد مقام یونیورسٹی کیمپس کا ماحول بھی بربادی میں پیچھے نہیں رہے گا‘ اسلامیہ کالج پشاور یونیورسٹی کیمپس کا وہ مثالی حصہ تھا جو پھولوں‘ پودوں‘ سبزہ زاروں اور انسان دوست ماحول کے حوالے سے مثال کے طور پر یاد کیا جاتا رہا‘ مگر کیا کریں کہ بلاوجہ بلاضرورت یونیورسٹی بنادیاگیا اور یوں مزید عمارتیں کھڑی کرنے کی ضرورت نے سبزہ زاروں کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ماحول دوست حلقوں نے آواز اٹھائی مگر بات محض جائزہ کمیٹی کی تشکیل اور رپورٹ تک پہنچ کر رفع دفع ہوئی بارہا لکھا گیاکہ بھئی یونیورسٹی اور بازار اور جنرل روڈ میں فرق ہونا چاہئے مگر ان سنی کی عادت جو کہ پکی روایت بن چکی تھی اپنی جگہ برقرار رہی ہاں البتہ اتنا ضرور ہوا کہ رکشہ سروس پر پابندی عائد کی گئی مگر یہ بات یقین اور وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ پابندی کب تک برقرار رہے گی؟ کیونکہ بہت سے حلقے بہت سے لوگ‘ یونیورسٹی کیمپس کے ماحول کو مزید بگاڑ سے ہمکنار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں‘ رکشہ سروس پر پابندی کی جگہ موٹر بائیک‘ٹیکسی رائیڈر اور غیر قانونی پرائیویٹ ٹیکسی گاڑیوں نے لے لی‘جبکہ پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں سے یہ جواب طلبی انتظامیہ اور پولیس اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتی کہ ان گاڑیوں میں کتنی قابل سروس اور کتنی کے پاس فٹنس سرٹیفیکیٹ ہے؟ عملہ صفائی نے فضلہ کو آگ لگانے کا جو طریق اپنا رکھا ہے آج تک کسی سویپر کے خلاف پرچہ کاٹا گیا اور نہ ہی اس انسان دشمنی بلکہ ذی روح دشمنی کی پاداش میں پابندسلاسل کیا گیا شجرکاری کی مہمات تو سال میں دو مرتبہ بڑے زور و شور اور تشہیر کیساتھ شروع کی جاتی ہیں مگر یہ بات جواب طلب بلکہ قابل احتساب ہے کہ پھولوں پودوں اور درختوں میں کتنا اضافہ ہوا؟ یا سال میں دو مرتبہ جو پودے لگائے جاتے ہیں ان میں سے کتنے باقی ہیں اور نشوونما کے مراحل سے گزر رہے ہیں؟ یہ بات ذہن نشین کر لینی ہوگی کہ یونیورسٹی کیمپس کے ماحول کو مزید برباد ہونے سے بچانے کے اقدامات میں مزید لاپرواہی اور غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں بلکہ آپہنچا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس کے تعلیمی اداروں کو بھی پنجاب کی طرح دھوئیں‘ سموگ اور بے تحاشہ آلودگی کے سبب بند کرکے ”ورک فرام ہوم“ کا لاحاصل طریقہ اختیار کرنا ناگزیر ہو جائے گا‘بہتری اسی میں ہے کہ قدرتی ماحول کی بربادی کی وجوہات اور عوامل کا تدارک یقینی ہو اور سب سے پہلے کیمپس کی انتظامیہ اور اساتذہ بالخصوص وہ لوگ جو کیمپس میں رہائش پذیر ہیں گاڑیوں سے اتر کر بطور واک دفتر آنے جانے یا کم از کم چین کی طرح سائیکل سواری کو اپنی عادات بنالیں‘باقی رہی غیرقانونی ناقابل استعمال گاڑیوں کی روک تھام اور دوسری مختلف ماحول دشمن سرگرمیوں اور ہلڑ بازیوں کے قلع قمع کرنے کی بات تو میرے نزدیک قواعد و ضوابط کی عملداری ضروری بلکہ لازمی ہوگی۔