اور دو دن میں کاتک کی جگہ ماگھ کی رت چھا جائے گی‘کاتک‘ خزاں کی رت کا مہینہ ہے لیکن خزاں ماگھ تک پھیلتی چلی جاتی ہے‘ان مہینوں میں امریکہ کے بہت سے پہاڑی علاقوں سے لیکر ہمالیہ کے پہاڑوں تک کے درختوں کے پتوں کی رنگت بھی بدلنے لگتی ہے‘یہ زمانہ سنہرا زمانہ کہلاتا ہے‘ ہمارے ہاں تو عموماً درختوں کے سبز پتے زرد ہو کر جھڑ جاتے ہیں‘ اسی مناسبت سے کاتک کو پت جھڑ کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے‘ البتہ امریکہ میں خصوصاً میسا چوسٹ اورکولو راڈو سٹیٹس کے کئی خطوں میں ستمبر کی بارشوں کے بعد درختوں کے پتے جھڑنے سے پہلے کئی رنگ بدلتے ہیں‘ سبزپتے پہلے ہلکے گلابی‘ پھر سرخی مائل‘بنفشی اور آخر میں شنگرفی رنگت میں ڈھل جاتے ہیں‘اس طرح ”سیر گل“ کا اصل مزہ ان ہی پہاڑی علاقوں میں آ تا ہے‘ پشاور کبھی شہر گل یا پھولوں کا شہر کہلاتا تھا‘ ظہیر الدین بابرنے اپنی تزک میں اسی نام سے پشاور کو یاد کیا ہے تاہم اب اس شہر کا چہرہ دھول سے اٹ گیا ہے‘ اس شہر کے پرانے باسی اب بھی اسے شہر گل فروشاں کہتے ہیں کیونکہ ایک زمانہ تھا جب پشاور کے گلی کوچوں میں صبح سویرے پھول بیچنے والے آجاتے تھے اور خوش ذوق پشاوری پھول خرید کر اپنے گھروں کو معطر رکھتے تھے‘ پشاوری گھرانوں میں نئی دلہن کو مہندی والی رات اب بھی پھولوں کے یہ روایتی زیور پہنائے جاتے ہیں‘البتہ شادی کے موقع پر ہر مہمان کے گلے میں جو ہار پہنایا جاتا تھا وہ سلسلہ اب ختم ہو گیا ہے‘یہ ہار کچھ عرصہ ایک پھول تک محدود ہو گیا تھا مگر یہ اس رسم سے جڑا ہوا تھا کہ شادی میں شریک ہونے والا ہر مہمان اپنی توفیق کے مطابق کچھ رقم جو ویل کہلاتی تھی شادی والوں کی طرف سے دروازے پر بٹھائے ہوئے شخص کو دیتا تھا‘وہ ایک رجسٹر یا نوٹ بک میں اس کے نام کا اندراج کرتا اور اسے ایک پھول پیش کرتا تھا‘یہ اس لحاظ سے ایک اچھی رسم تھی کہ اس طرح شادی کے گھر والوں کے اخراجات میں قدرے کمی آ جاتی مگر رفتہ رفتہ اسے معیوب سمجھا جانے لگااور شادی ہالوں کے رواج پانے کے بعد تواسے ترک ہی کر دیا گیا‘ البتہ شادی سے مہینہ بھر پہلے پشاوری گھروں میں جو ہر شام کو گانے بجانے کی محافل بپا ہوتی تھیں وہ اب ویک اینڈ تک محدود ہو گئی ہیں‘ان میں بھی جو بات مجھے زیادہ اچھی لگتی ہے‘ وہ رات کو اپنے گھر سے کھانا کھا کرجانا ہے‘ اسلئے شادی کے گھر والے گانے بجانے کے دوران مہمانوں کی تواضع شیر چائے(کشمیری چائے) اور باقرخوانی سے کی جاتی ہے‘ان محافل میں اگرچہ نوجوان لڑکے لڑکیاں مل کر گاتے ہیں اور بڑے بوڑھے بھی عمر رفتہ کو آواز دیتے ہوئے ان کا ساتھ بھی دیتے ہیں اورانعام کے طور پر کچھ پیسے
بھی دیتے ہیں‘یہ پیسے بھی ویل کہلاتے ہیں‘جو جمع ہوتے رہتے ہیں اور شادی کے بعدسب مل کر چائے‘کھانا یا پھر آئس کریم پارٹی کا اہتمام کرتے ہیں‘ پشاو ر کی سماجی زندگی میں ہمیشہ سے ایک رکھ رکھاؤاور تہذیب کا قرینہ موجود ہے‘ گزشتہ دنوں دوست ِ عزیز اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا محمد علی بابا خیل کا فون آیا کہ آپ پشاور آ گئے ہیں تو ایک کپ کافی کیلئے آجائیں‘ پولیس فورس کے بہت سے دوستوں سے ایک محبت کا رشتہ ہے‘ مجھے یاد ہے کہ جب دوست مہربان سعید خان آئی جی پی تھے تو میری گلشن رحمان والی رہائش گاہ پر تشریف لاتے یا پھر گاڑی بھیج کر مجھے گھر بلا لیتے ایک دو بار تو میں محبی حسام حر کو بھی ساتھ لے گیا تھا‘ اسی طرح میرے دل کے بہت ہی قریب دوست سابقہ آئی جی پی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمن جب پشاور میں سی سی پی او تھے توہر
رات شہر کی گشت پر نکلتے اور رات گئے فون کرتے اگر جاگ رہیں تو قہوہ پیا جاسکتا ہے یوں بارہا میرے غریب خانے پر لدے پھندے آتے‘ قہوہ پرعمدہ ادبی گفتگو ہوتی یا پھر مجھے گھر بلا لیتے‘ ایک بار لطیفہ یہ ہوا کہ میں نے انہیں فون کیا کہ آپ کہاں ہیں‘ میں آپ کے گھر کے پاس ہوں‘کہنے لگے اچھا بس ایک منٹ۔ کہہ کر فون بند کردیا‘ اور پھر کال بیک کر کے کہنے لگے آپ کہاں ہیں‘ گھر کے باہر تو آپ نہیں ہیں‘ میں نے کہا حضور گھر کے باہر نہیں گھر کے پاس ہوں‘کیا مطلب؟ پھر میں نے انہیں بتایا کہ میں اس وقت ہری پور میں ہوں اور آپ کے گھر کے علاقے میں ہوں‘خوب انجوائے کیا‘ اسی طرح میاں محمد آصف جب ایڈیشنل آئی جی پی تھے توان سے میری پہلی ملاقات میرے اپنے گھر میں ہوئی جب ان کا فون آیا کہ ملنا چاہتا ہوں میں نے کہا حاضر ہو جاؤں گا کہاں آجاؤں تو کہنے لگے فی الحال تو اپنے گھر کے دروازے پر آنے کی زحمت کریں‘ باہر آیا تو دوست عزیز اور اس وقت کے اکاؤنٹنٹ جنرل خیبر پختونخوا فہیم صدیقی اور میاں محمد آصف کھڑے مسکرا رہے تھے‘ پھر تو کئی بار آئے بلکہ ایک
بار تو میں انہیں پروفیسر حسام حر کے گھر ہونیوالی ادبی نشست ملاقات میں لے گیا۔ان کے سفر نامہ اپنوں کے درمیاں کا دیباچہ بھی میرا لکھا ہوا ہے اسی طرح مرحوم ناصر درانی سے بھی محبت کا رشتہ تھا جو ان کے لاہور جانے کے بعد بھی قائم رہا‘ کمانڈنٹ پولیس کالج ہنگو ڈاکٹر فصیح الدین اشرف کی بات اسلئے نہیں کرونگا کیونکہ وہ پولیس آفیسر سے زیادہ پشاور کے قلم قبیلے کے ایک طرحدار ساتھی ہیں سات زیادہ ضخیم کتب کے لکھاری ڈاکٹر فصیح الدین کا اوڑھنا بچھونا شعر و ادب ہے اور وہ قلم قبیلے کے ہر فرد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں‘ چند برس پیشتر میری امریکا یاترا سے واپسی پر ایک شاندار تقریب کا اہتمام انہوں نے اپنی قائم کردہ ریسرچ لائبریری میں کیا تھا۔ بات محمد علی بابا خیل سے ملاقات کی ہورہی تھی جو خود ایک بہت اچھے لکھاری ہیں‘ ان سے ادب پر بات ہوتے ہوتے پشاور کی سماجی زندگی کی طرف مڑ گئی‘ انہیں ایک قلق یہ بھی تھا کہ شہر گل فروشاں کی سماجی زندگی میں کل جو ایک وضع داری‘ رکھ رکھاؤ‘ تہذیب اور شائستگی تھی وہ اب کہیں نظر نہیں آتی‘شادی بیاہ کی دل خوش کن رسومات تو رہیں ایک طرف‘افسردگی اور ماتم کی رتوں میں ان کے طور طریقے قابل تقلید ہوتے ہیں‘فاتحہ خوانی کیلئے آنے والوں کو چند ہی لمحوں میں خود ہی اجازت دی جاتی ہے اسکے پیچھے مہمان کی مصروفیات کا احساس بھی ہوتا ہے اور بسا اوقات گلی محلوں میں جگہ کی قلت بھی آڑے آتی ہے‘ بابا خیل کہہ رہے تھا اگر ایک تواتر سے لکھنے والے ان موضوعات پر لکھیں تو عین ممکن ہے پشاور کی عظمت ِ رفتہ بحال ہو سکے اور محبت کا چلن پھر سے رواج پا جائے‘محمد علی بابا خیل نے ایک مزے کی بات یہ بھی کی کہ ابھی جب آپ کار ادب اور کتابوں کی بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک خیال کی بجلی کوندی کہ میں صوابی میں اپنے آبائی گھرمیں اپنے لوگوں کیلئے ایک لائبریری بناؤں‘ انشاء اللہ جلد ہی اس پرکام شروع کرتا ہوں‘ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا کیونکہ وہ اپنے نئے خیال کو عملی جامہ پہنانے پر قادر ہیں‘ تبھی تو ہزارہ میں انہوں نے اپنی نوعیت کی پہلی دو روزہ محرر کانفرنس کا انعقاد کر دیا تھا‘پشاور اور کل کے پشاور کے حوالے سے ایک عمدہ گفتگو‘ میرے بچپن کا پشاور‘ نومبر کی پندرھویں سہ پہرتین بجے‘ پشاور عجائب گھر میں امریکا سے آئے ہوئے معروف ادیب‘ کالم نگار اور دانشورڈاکٹر سید امجد حسین کرینگے‘ ڈاکٹر امجد حسین جس دن واپس امریکا جاتے ہیں ٹھیک اسی دن سے پشاور آنے کا پروگرام بنانے لگتے ہیں شاید میری طرح وہ بھی یہی سوچتے ہیں
راستے رزق ِ کشادہ جے بہت ہیں ناصر
کوئی اس شہر ِ پشاور سے جدا کیسے ہو