قرآن کا انداز بیان منفرد ہے، جس میں اللہ تعالیٰ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم دلی کو اپنی رحمت قرار دیتے ہیں۔“پس یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان کے لئے نرم دل ہو۔ اگر تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو لوگ تم سے دور ہو جاتے، پس انہیں معاف کر دو اور ان کے لئے بخشش طلب کرو اور اپنے معاملات میں ان سے مشورہ لو، اور جب ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ بے شک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے”(سورہ آل عمران ۳:۱۵۹)سورہ الکہف میں چند نوجوانوں اور ان کے کتے کا ذکر ہے، جو ۳۰۹ سال تک ایک غار میں اللہ کے فضل سے سوئے رہے۔ بیدار ہونے پر انہوں نے اپنے میں سے ایک کو کھانا لانے کے لئے شہر بھیجا اور ہدایت کی کہ لوگوں کے ساتھ نرمی سے بات کرے۔ یہ نصیحت ان لوگوں کے لئے ہے جو ہدایت یافتہ ہیں اور اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لئے اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں۔“پھر دیکھو کون سا پاکیزہ کھانا ملتا ہے، اسے تمہارے لئے لے آئے اور نرمی سے بات کرے”(سورہ الکہف ۱۸:۱۹)۔
دین کی تبلیغ میں بھی حسن سلوک کا اصول پیش نظر رہنا چاہیے اور لوگوں کو حکمت و موعظہ حسنہ سے دعوت دینی چاہیے۔“اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو اور ان سے بحث بھی بہترین طریقے سے کرو”(سورہ النحل ۱۶:۱۲۵)قرآن میں حضرت موسیٰ کا ذکر ۱۳۱ آیات میں ۱۳۶ بار آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو رسالت کے منصب کے لئے تیار کیا اور فرعون کو دعوت دینے کا حکم دیا۔ حضرت موسیٰ نے اللہ سے مدد طلب کی کہ ان کا کام آسان کیا جائے، ان کی زبان کی گرہ کھولی جائے اور ان کے لئے معاون مقرر کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی دعا قبول کی گئی اور ساتھ ہی یہ ہدایت دی کہ فرعون سے نرمی سے بات کریں، یہ ایک گہرا سبق ہے کہ نرم رویہ اختیار کرنا کتنی اہمیت رکھتا ہے، چاہے سامنے والا کتنا ہی ظالم اور جابر کیوں نہ ہو۔“پس تم دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے”(سورہ طٰہٰ ۲۰:۴۴)لفظ“رحیم”جو اللہ تعالیٰ کی ایک صفت بھی ہے، قرآن میں ۲۲۱ آیات میں ۲۲۳ بار آیا ہے، جو اسلام میں نرمی اور حسن سلوک کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر حسن سلوک کی تاکید کی ہے اور اسے صدقہ اور خیرات سے بھی افضل قرار دیا ہے۔ ہدایت دی گئی ہے کہ لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور چھوٹی باتوں کو درگزر کریں۔“بھلی بات کہہ دینا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد کوئی تکلیف پہنچائی جائے”(سورہ البقرہ ۲:۲۶۳)قرآن مجید انسانی حقوق کی عظیم ترین کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک والدین کا حق اہم ترین ہے اور متعدد مقامات پر اپنی عبادت کے ساتھ والدین کی خدمت اور اطاعت کا حکم دیا ہے۔ والدین کا ذکر کم و بیش ۲۸ مرتبہ ۲۳ آیات میں آیا ہے۔“اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو”(سورہ بنی اسرائیل ۱۷:۲۳)قرآن میں یہ تعلیم بھی ہے کہ کسی ناسمجھ یا احمق انسان سے نرمی سے بات کریں اور اگر وہ نا مناسب بات کہے تو اسے اچھے انداز میں ٹال دیں۔ اس میں حسن سلوک کی بہترین مثال ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ الجھنے یا بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔“اور جب وہ کوئی بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اسے ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ہم تمہیں سلام کرتے ہیں، ہم نادان لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتے”(سورہ القصص ۲۸:۵۵)حسن سلوک کا پہلا اصول عاجزی اور انکساری ہے۔ اگر انسان اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہ سمجھے تو غرور سے بچا رہتا ہے۔ قرآن میں تاکید ہے کہ تکبر سے بچا جائے اور لوگوں کے ساتھ محبت اور انکساری سے پیش آیا جائے۔“اور لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر اور زمین پر اکڑ کر نہ چل۔ بے شک اللہ کسی تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا”(سورہ لقمان ۳۱:۱۸)کسی قوم کی ترقی کا راز اس کے افراد کے باہمی تعلقات اور باہمی عزت میں ہے‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حسن سلوک اور عاجزی کی توفیق عطا فرمائے۔