پشاور کے بزرگ حاجی غلام احمد بلور نے حال ہی میں پارلیمانی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے۔ 84 سالہ حاجی بلور اپنے خاندان کے سب سے عمر رسیدہ رکن ہیں اور یہ سیاسی طور پر تین نسلوں سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے وابستہ ہیں‘بلورز‘ اے این پی اور پشاور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کے رشتے وفاداری، لچک اور قربانیوں کی بنیاد پر قائم ہےں‘ گزشتہ کئی دہائیوں میں بلور خاندان نے بے پناہ نقصان برداشت کیا ہے اور اپنی زندگیاں، گھر اور کاروبار اس شہر کو دے دیئے ہیں ‘جسے وہ اپنا گھر کہتے ہیں‘بلورز واقعی پشاور کی عظمت اور غم کی عکاسی کرتے ہیں‘ صدیوں تک، پشاور پھلتا پھولتا تجارتی و ثقافتی مرکز اور متنوع جگہ رہی‘ یہ شہر دستکاروں اور دستکاریوں کا گھر رہا اور اس کے اندرون شہر میں ہندکو بولنے والے خاندانوں کی نسلوں کے خزانے موجود تھے تاہم نائن الیون کے بعد پشاور کی کہانی نے المناک موڑ لیا‘سال دوہزاردس سے پہلے اور بعد کے ہنگامہ خیز برسوں کے دوران بلور خاندان نے پشاور کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت خون بہاتے ہوئے دیا اور اُن کی قربانیوں کا اعتراف بھی کیا گیا‘ پشتونوں کا ثقافتی دارالحکومت ہونے کے ناطے، اے این پی نے پشاور کے مفادات کو پیش نظر رکھا‘ بلور واحد خاندان نہیں تھا جسے اے این پی سے وابستگی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا‘ سال دوہزارچودہ میں میاں مشتاق سے لے کر دوہزاراُنیس میں سرتاج خان تک پارٹی میں سٹی صدور اور کارکنوں سمیت کئی دیگر افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن بلور خاندان کی قسمت منفرد طور پر المناک رہی کیونکہ انہیں کئی نسلوں تک نقصانات کا سامنا کرنا پڑا‘حاجی بلور باچا خان کے وفادار پیروکار اور ولی خان کے معتمد ہیں اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہر مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ ثابت قدم رہے ہیں‘ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ مذہب اور سیاست میں ہم ثابت قدمی سے کھڑے ہیں، چاہے کچھ بھی ہو جائے‘ غلام احمد بلور نے 1970ءکی دہائی میں سیاست میں قدم رکھا اور اپنے کیریئر کے د وران وہ پانچ سے زیادہ بار جیل گئے، جن میں خان عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو اور عطا اللہ مینگل کے ساتھ حیدرآباد سازش کیس میںبھی شامل رہے‘ 1975ءمیں بلور کے چاروں بھائی بیک وقت سلاخوں کے پیچھے تھے جو ان کی مشترکہ لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ سال دوہزارسات سے دوہزارسولہ کے درمیان (حال سابق) فاٹا اور خیبر پختونخوا میں تشدد کے نئے دور کا آغاز ہوا‘ اے این پی کے سینکڑوں کارکنوں اور رہنما¶ں نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ان میں بلوربرادرانکو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘خاندان کی سب سے قابل احترام عوامی شخصیت بشیر بلور کو پہلا بڑا نقصان ہوا۔ حاجی بلور سے کم عمر بشیر بلور دو بار اے این پی کے قائم مقام مرکزی صدر اور دو بار صوبائی صدر رہ چکے ہیں‘بشیر بلور، جو اس وقت صوبائی اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اور سینئر وزیر تھے، ہمیشہ کسی بھی دھماکے کی جگہ پر پہنچنے والے پہلے شخص ہوتے‘ ایک ایسا وقت جب پشاور شہر میں بم دھماکے کم از کم ہفتہ وار ہوتے تھے؛انہوں نے کھل کر طالبان کے بیانئے کو چیلنج کیا‘ اُن کا مشہور جملہ ہے کہ ”دہشت گردوں کے پاس خودکش جیکٹیں ختم ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے سینے اپنے وطن کے دفاع کے لئے کم نہیں ہوں گے“ بشیر بلور متعدد قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنے اور بالآخر دسمبر دوہزاربارہ میں قصہ خوانی بازار میں خودکش بم دھماکے کے دوران 69 سال کی عمر میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے‘بشیر نہ تو پہلے بلور تھے اور نہ ہی آخری جنہوں نے عوام کے لئے اپنی جان قربان کی‘ حاجی بلور کا بیٹا شبیر 1997ءکے این اے ون پر ضمنی انتخاب کے دوران پولنگ بوتھ پر فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ 2018ءمیں بشیر کے بیٹے بیرسٹر ہارون بلور جنہیں اپنے والد کے سیاسی وارث کے طور پر دیکھا جاتا تھا خودکش بم دھماکے میں شہید ہوئے اور اِس حملے میں کئی دیگر پارٹی کارکن بھی جان کی بازی ہار گئے‘ ہارون کی بیوہ ثمر بلور نے بہادری سے یہ ذمہ داری سنبھالی اور قومی میڈیا میں اے این پی کی مضبوط آواز بن گئیں‘ہارون کی موت کے بعد بلورخاندان کی دو نسلیں دہشت گردی کا شکار ہو گئیں اور صرف سوگوار حاجی غلام بلور ہی اس خاندان کی وراثت کو آگے لے جانے کے لئے رہ گئے‘ اپنے بے پناہ نقصان کے باوجود حاجی بلور نے پشاور کے ساتھ اپنی وابستگی برقرار رکھی، جسے اکثر پارٹی کے مظاہروں، ریلیوں اور مظاہروں میں دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے مہنگائی کے خلاف اے این پی کے احتجاج کے دوران بھوک ہڑتال میں بھی حصہ لیا تھا‘حاجی بلور سیاست دانوں کی نایاب نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جن کے لئے سیاست عوام کے ساتھ تاحیات وابستگی کا نام ہے‘ پشاور کی زوال پذیر شان و شوکت کا عکس یہ ہے کہ حاجی بلور اپنے آبائی گھروں کو فروخت کر رہے ہیں! بلور، جو شہر میں ترقی پسند نظریات کے علمبردار ہیں، پشاور کو خیرباد کہہ رہے ہیں‘ ایسا لگ رہا ہے جیسے شہر کی سیاسی روح اِس سے جدا ہو رہی ہے اور صرف بلور ہی نہیں بلکہ پشاور کے تعلیم یافتہ اور خوشحال باشندے پہلے ہی یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر بخت نور نصر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)