عظمت رفتہ کی بحالی کا عزم

تاریخ تو یاد نہیں مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ سال 2008ء دسمبر کا مہینہ تھا اسلامیہ کالج کے تاریخی خیبر یونین ہال میں منعقدہ تقریب میں اس وقت کے گورنر لیفٹیننٹ  جنرل(ر) علی محمد جان اورکزئی نے جو کہ عرصہ دو سال تاریخی درسگاہ کے طالب علم اور ہارڈنگ ہاسٹل کے مکین یا مقیم رہ چکے تھے‘ اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے اور ساتھ ہی ابتدائی گرانٹ کے طورپر50 کروڑ روپے کا اعلان کیا تھا اس کے بعد میری اس رائے سے کسی بھی موقع پر کسی نے ظاہری طور پر اختلاف نہیں کیا کہ اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی بنانا ایک غیر ضروری اقدام تھا‘ سپیس یا جگہ کی کمی تو خیر ایک طرف لیکن ضرورت اسلئے نہیں تھی کہ پشاور یونیورسٹی کا کالج ہوتے ہوئے بھی اسلامیہ کالج میں انٹر‘ بیچلر ماسٹر اور پوسٹ گریجویٹ سطح کی تعلیم و تحقیق کا سلسلہ جاری تھا محض بی ایس پروگرام کے اجراء اور ایک قدیم عمارت میں گرلز کالج کھولنے کیلئے یونیورسٹی بنانا سمجھ سے بالاتر تھا ہاں جن لوگوں کی یہ خواہش جنرل صاحب نے پوری کردی ان میں بہت سارے آج ہمارے درمیان موجود نہیں‘ البتہ سینئر ایلومنائے ایسوسی ایشن اب بھی آب و تاب سے قائم ہے اور اسلامیہ کالج کے اندرونی مسائل کے حل کیساتھ تاریخی درسگاہ کی جائیداد کے تحفظ کیساتھ ساتھ نادار طلباء کی مالی امداد کی کوشش بھی کر رہی ہے اسی طرح اساتذہ‘ کلریکل سٹاف‘ درجہ چہارم ملازمین کی یونیز بھی قائم ہیں اور اپنے مسائل کے حل کی کوشش میں لگی رہتی ہیں ساتھ ہی طلباء یونینز بھی کوئی نئی بات نہیں البتہ اس میں وقت کیساتھ ساتھ اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلامیہ کالج باضابطہ سٹوڈنٹس سوسائٹیز نہیں ہیں پرووسٹ آفس کے زیراہتمام قائم سوسائٹیز میں خیبر اسلامک کلچر سوسائٹی ہم نصابی سرگرمیوں کے انتظام و انصرام اور فروغ میں نمایاں نام و مقام کی حامل رہی ہیں ہمارے قومی دھارے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک شخصیات انہی تنظیموں سے وابستہ رہ چکی ہیں جن میں تقریباً ہر ایک نے ایلومنائے ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے اسلامیہ کالج اور اس کے طلباء اور ملازمین کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے خدمات انجام دی ہیں یونین سازی یا کسی بھی ادارے میں ملازمین کا ایک تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنا بنیادی حقوق میں شمار کیاجاتا ہے تاہم طلباء اور اساتذہ سمیت ہر تعلیمی ادارے کے غیر تدریسی ملازمین کے لئے قواعد و ضوابط اور ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے آگے بڑھنا لازمی ہونا چاہئے اسلامیہ کالج اساتذہ کی ٹیچنگ سٹاف ایسوسی ایشن اور ای سٹوڈنٹس تنظیم کے مابین حال ہی میں کشیدگی کی جو صورتحال پیدا ہوئی تھی اسے مفاہمت کے مسلمہ اصولوں پر عملدرآمد کرکے رفع دفع کرنا ایلومنائے ایسوسی ایشن بالخصوص اس کے روح رواں الحاج محمد زمان محمد زئی کی رضا کاری یا خدائی خدمتگاری کے سلسلے میں ایک بڑا اضافہ بلکہ کارنامہ مانا جائیگا ایسے میں یہ امر بھی باعث اطمینان اور خوش آئند ہے کہ تاریخی درسگاہ کے سبکدوش اساتذہ بھی پروفیسر عبدالسلام خالص اور ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کی کوششوں سے یکجا ہوگئے اور یوں اسلامیہ کالج میں ایک نئی تنظیم ریٹائرڈ فیکلٹی ایسوسی ایشن کے نام سے معرض وجود میں آئی‘توقع کی جاتی ہے کہ یہ قیام بھی تاریخی درسگاہ کی عظمت رفتہ کی بحالی اور اس کے اساتذہ اور طلباء کی فلاح و بہبود اور بہتری کا باعث ثابت ہوگا‘ ویسے یہ کوشش اس سے قبل سابق ڈین اور علوم نباتات  کے ممتاز پروفیسر سید ظاہر شاہ نے بھی کی تھی ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے ساتھیوں سمیت اسی تنظیم کاحصہ ہونگے چونکہ اسلامیہ کالج کے مایہ ناز طلباء نے قومی زندگی کے ہر شعبے میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کر رکھا ہے اس لئے یہ توقع بے جا نہیں ہوگی کہ اسلامیہ کالج کے موجودہ طلباء بھی اپنی یونین سازی اور اس کی سرگرمیوں میں نہ صرف تعلیم و تربیت کو ترجیح دیں گے بلکہ اپنے اساتذہ کا احترام بھی ملحوظ خاصر رکھیں گے۔