پارلیمانی جمہوریت کے تقاضے

دنیا میں رائج مختلف قسم کے حکومتی نظاموں کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن کو پورا کئے بغیر وہ احسن طریقے سے چلائے نہیں جا سکتے ‘مثال کے طور پر پارلیمانی نظام جمہوریت کا بنیادی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے نکتہ ہائے نظر کو نظر انداز کرنے کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ گفت و شنید کرنا ضروری ہوتا ہے اور ہر سیاسی جماعت میں اپنے اوپر تنقید سننے کے لئے برداشت کے مادہ کاہونا بھی ضروری ہوتا ہے‘ پارلیمانی اراکین کو اسمبلی کے فلور پر ایک دوسرے پر ہاتھ ڈال کر مشت و گریبان ہو کر ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے کے بجائے ہر ایک کا موقف ٹھنڈے دل سے سننا بھی ضروری ہوتا ہے‘ بصورت دیگر پارلیمانی جمہوریت کی گاڑی نہیں چل پاتی ‘کیا 1950 ءکے عشرے میں وطن عزیز کی ایک صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کا اسمبلی کے فلور پر اراکین اسمبلی کے آپس میں دھینگا مشتی کے دوران سر نہیں پھٹا تھا جس پر ایوب خان نے یہ طنزیہ فقرہ کسا تھا کہ اس قوم کا مزاج پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ میل نہیں کھاتا‘ اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ پارلیمان میں ملک کے ہر طبقے کی آبادی کے لحاظ سے اسی طبقے کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد کی نشستیں مختص ہونی چاہئیں جسے انگریزی میں proportional representation کہتے ہیں ‘جیسا کہ ناروے ڈنمارک اور سویڈن میں ہوتا ہے کیوںکہ یہ غیر فطری بات ہے کہ کوئی بڑا لیند لارڈ یا صنعت کار یا تاجر کسانوں ‘ہاریوں وغیرہ کے مسائل کو اس قدر سمجھ سکے کہ جتنا ان طبقوں سے تعلق رکھنے والا اپنا فرد سمجھ سکتا ہے۔ اسمبلیوں میں ان لاچار طبقوں کے اپنے نمائندوں کی موجودگی سے یہ فائدہ ضرورہوگا کہ جو قانون سازی بھی ہوگی اس میں ان کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا ‘اور ان کے مسائل کا حل بھی فوری طور ٰر ممکن ہو سکے گا۔ اس سلسلے میں الیکشن اصلاحات کی فوری ضرورت ہو گی تاکہ آنے والے عام انتخابات میں اس ملک کے غریب طبقوں کی پارلیمنٹ میں صحیح اور موثر نمائندگی ہو سکے ۔آزاد امیدواروں کے رحجان کی بھی حوصلہ شکنی ضروری ہے ‘کیوںکہ ان میں سے اکثر بعد میں بکاﺅ مال بن جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر پارٹی کے پارٹی فنڈز پر عقابی نظر رکھنا ضروری ہے ۔تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اکثر اوقات معاشرے کے وہ افراد جنہوں نے غیر قانونی طریقوں سے اربوں روپے کمائے ہوتے ہیں وہ اس سیاسی پارٹی کے پارٹی فنڈز میں بھاری بھر کم رقم جما کرا دیتے ہیں کہ جس سے ان کی دانست میں الیکشن جیتنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں ‘ مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس پارٹی کے قائد کے منظور نظر بن جائیں تاکہ وہ الیکشن کے وقت ان کو الیکشن لڑنے کے واسطے پارٹی کا ٹکٹ دے دے اس طرح انہیں انتخابات میں شامل ہونے کے لئے ٹکٹ کے حصول کے لئے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی اوروہ پارلیمنٹ میں اس لئے آ نا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں جو بھی ایوان اقتدار میں ایک مرتبہ آ جائے وہ کسی بھی احتسابی عمل سے اکثر بہ آ سانی اپنی جان چھڑا لیتا ہے اور قرار واقعی سزا سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے۔ ارباب اقتدار میں شامل ہو کر وہ ناجائز طریقوں سے کمایا ہوا اپنا دھن بچا لیتے ہیں ۔ہر پارٹی کے پارٹی فنڈز کا آڈٹ ایک ہی چارٹڈ کمپنی کے بجائے دو تین آڈٹ کمپنیوں سے کرایا جائے اور الیکشن کمیشن قوم کو بتائے کہ کس کس نے کتنی کتنی رقم جمع کرائی ہے اور اس کا ذریعہ معاش کیا ہے ‘سو باتوں کی ایک بات جب تک صادق و امین قسم کے لوگ جو بشری کمزوریوں سے پاک ہوں وہ پارلیمنٹ میں نہیں آئیں گے‘ اراکین پارلیمنٹ کے ہاتھوں میں بے پناہ اختیارات محض اس بات پر دے دینا کہ وہ عوام کے ووٹ لے کر آ ئے ہیں ‘کوئی دانشمندانہ بات نہ ہوگی ۔شاعر مشرق نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۔بہر حال ہماری ملک و قوم سے مخلص اشرافیہ سے ہی یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں جمہوری نظام کی کامیابی کے لئے آئینی اصلاحات کرنے میں تاخیر نہیں کرے گی۔