درختوں کا کرب

پشاور میں ہمارا محلہ شاید سب سے چھوٹا ہوگا دو گلیاں اور کچھ میٹر کی سڑک‘ جہاں سے پشاور شہر کے اندر اور باہر ہر جگہ کا راستہ نکل آتا ہے‘ہمارے محلے کانام ایک درخت کے نام پر ہے بچپن میں تو اس درخت کے بارے میں قطعاً علم نہ تھا نہ ہی  یہ معلوم تھا کہ یہ درخت کا نام ہے بعد میں پتہ چلا کہ یہ دنیا کا قدیم ترین درخت ہے‘  میں سوچتی تھی کہ بڑھ کا درخت کیسا ہوتا ہوگا ہمارے محلے کانام اسی درخت پر کیوں رکھا گیا اس کا جواب تومیرا ذہن یہی دیتا تھا کہ ضرور اس جگہ پر یہ قدیم ترین درخت ہوگا یا یہاں کی کسی مسجد میں اس درخت کے آثار ہونگے ورنہ کیوں ہمارے آباء واجداد اس محلے کا نام بڑھ رکھتے‘ان زمانوں میں آزادی سے پہلے تمام اقوام اکٹھی رہتی تھیں‘آج بھی اونچے اور ایک سیدھ میں بنے ہوئے لمبے گھر ہندی طرز تعمیر کو ظاہر کرتے ہیں‘ ایک دو مرلے پر بھی ایسے زبردست گھر بنا لیتے تھے جو ہر منزل کو ایک ایک کمرہ‘ کھڑکی‘ چھوٹا سا ویہڑہ دیتے دیتے کئی منزلوں پر پہنچ کر ختم ہوتا تھا جب میں اسپین گئی تو ہمیں وہاں کے یونیک گھروں کو دکھانے کیلئے لے جایا گیا اور اسپین کے مشہور ماہر تعمیرات کے بارے میں معلومات دی گئیں جس نے ان گھروں کو یونیک کیا تھا اور میں یہ بات جان کر حیران ہوگئی کہ ان گھروں کوسب سے ممتاز جو شے بناتی تھی وہ ان کا منگ تھا جو چھت میں ایک خاص شگاف کرکے دھوپ اور روشنی کی فراوانی فراہم کرتا تھا یہ منگ تو پشاور شہر کے گھروں کا خاصہ تھا اور ہے بھی‘ ایک لمحے کو تو میں نے یہ سوچا تھا کہ کہیں ماہر تعمیرات گاوڈی پشاور کا تو نہیں تھا یا پھر ہمارے گلکار(معمار) اسپین تو نہیں گھوم آئے تھے‘بہرحال پشاور کے گھروں کا منگ تو اتنا وسیع و عریض تھا کہ دو لوگ اس کو دونوں سائیڈز سے پکڑ کر کھولتے اور بند کرتے تھے اگرچہ ہمارا گھر چھوٹا تھا ان دنوں گھر چھوٹے ہی ہوتے تھے۔ سری لنکا کے شہر کینڈی گئی راستے میں پر ہرارا(Prehara) باغات دیکھے‘400 سالہ پرانا بڑھ کا درخت دیکھا تو حیران رہ گئی اس درخت اور اس کے نام سے میرا بچپن اورمیرا پتہ نشان وابستہ ہے‘ اس درخت کی جڑیں گہری اور کلومیٹرز پر پھیلی ہوئی تھیں‘میں نے اس درخت کیساتھ کھڑے ہو کر تصویر بھی بنوائی تھی۔رب تعالیٰ کی کیا شان و عظمت ہے کہ اونچے لمبے ہرے بھرے درخت پیدا کرکے اس نے ہمارے لئے زمانے کی اونچ نیچ کی نشاندہی کردی ہے‘ درخت چھوٹا‘ پھر بڑا‘ پھر بہت بڑا‘ گھنا‘ سایہ دار‘ پھل دار‘ انسان کی طاقت ہی نہیں کہ اس پر لگے ہوئے پھل کے بارے میں یہ سوچ سکے کہ وہ خود بھی ایسا پھل ایجاد کر سکتا ہے‘ مالٹے کا درخت مالٹا ہی پیدا کرے گا اور آم کا درخت آدم ہی اگائے گا‘ ان سب باتوں میں ہم سب انسانوں کے سمجھنے کیلئے سبق اور خاص نشانیاں ہیں‘ رب کی تمام مخلوقات کی اسی طرح مختلف اکائیوں میں تقسیم درتقسیم ہوتی ہے پھر موسم پوری قوت اور طاقت سے آتے ہیں‘ آندھی‘ طوفان‘ بارش‘ برفباری سب قدرت کے نظارے ہیں اور ہر ایک اپنے اندر حسن خوبصورتی‘ طاقت اور پھر بربادی نہاں کئے ہوئے ہے‘بہار خراماں خراماں آکر خوشبوئیں بکھیرتی ہے بارش برس کر ان درختوں کو سیراب کرتی ہے‘خوبصورت بناتی ہے‘طوفان اسکو جڑ سے نکال کر پھینک سکتا ہے اور جہاں میں رہتی ہوں یہاں جو موسم سب سے زیادہ مہینوں پر محیط ہے وہ برف باری ہے یہاں کے درختوں کی شان الگ ہے‘نہ جانے اونچے درخت مجھے کیوں اچھے لگتے ہیں جیسے باتیں کر رہے ہوں‘ہنس رہے ہوں اور اپنی شان دکھا رہے ہوں‘ایک بات ہم اپنے وطن کی کبھی نہ بھولیں کہ درخت پھول بوٹے جس طرح کوڑیوں کے مول پاکستان میں فروخت ہوتے ہیں مغرب والے اس کے بارے میں کوئی سوچ نہیں رکھتے یہاں مغرب میں پودے اور درخت اتنے مہنگے ہیں کہ آپ لاکھوں روپوں میں ان کی خرید کا اندازہ لگا سکتے ہیں کاش پاکستان سے پھولوں درختوں کا کاروبار کرنے والے اس بارے میں سوچیں اور زرمبادلہ کمائیں‘یہاں کے درخت‘ پھول پودے خوبصورت اور رنگ دار تو بہت ہیں‘ پر ان میں خوشبو نہیں ہے‘موسم بہار میں ہوا بغیر خوشبو کے آتی جاتی ہے‘ باد صبا کا یہاں کوئی تصور نہیں ہے اس کی وجہ یہاں کے لوگوں میں پائی جانے والی مختلف الرجیز ہیں کہ خوشبو سے وہ بیمار ہو جاتے ہیں‘کس کے گھر پھولوں کا گلدستہ لے کر جانا ایک مہنگا ترین تحفہ ہے اور پھر بغیر خوشبو کے تو بہت ہی عجیب بھی لگتا ہے‘ مغرب کا موسم خزاں شاید دنیا کا خوبصورت ترین موسم ہوتا ہے‘درخت زرد اور سرخ ہو جاتے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں تو کسی دل فریب اور حسین ترین جگہ کا پتہ بھی دیتے ہیں‘ یہاں موسم خزاں کے ٹور بک ہوتے ہیں۔ستمبر‘ اکتوبر دو مہینے ایسے ہیں کہ لوگ خزاں کے درخت دیکھنے کینیڈا کے کئی شہروں کا رخ کرتے ہیں‘ زرد اور سرخ درخت آپ کو کسی اور دنیا میں لے جاتے ہیں‘آپ اپنا آپ بھول جاتے ہیں‘ ہر انسان کے گوشہ نہاں میں کچھ نہ کچھ ٹوٹ پھوٹ موجود ہوتی ہے‘ یہ زرد اور سرخ اور گرتے ہوئے پتے بڑا سکون دیتے ہیں۔ لاکھوں ڈالرز کی سیاحت ان درختوں پر کی جاتی ہے اور خوشیاں بانٹی جاتی ہیں‘پیسہ کمایا جاتا ہے اور پھر نومبر میں ہوائیں چلتی ہیں‘موسم یخ برف ہونا شروع ہو جاتا ہے برف باری کی آمد کی نوید سناتا ہوا یہ موسم درختوں کے تمام تر پتوں کو جھاڑ دیتا ہے‘بڑے بڑے توانا درخت بھی کالے سیاہ اور سوکھی ٹہنیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سوچئے قدرت کیا پیغام دے رہی ہے‘درختوں کا یہ کرب کا موسم ہوتا ہے‘ وہ جاندار ہیں ان کے احساسات کیا ہوتے ہونگے وہ کئی مہینے اسی کرب میں گزار دیتے ہیں اور پھر دوبارہ قدرت کی عظیم نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں درخت ہرے ہونا شروع ہو جاتے ہیں کبھی میں نے‘ آپ نے سوچا کہ ان موسموں میں قدرت ہمیں کیا پیغام دیتی آرہی ہے مجھے تو ایک ہی پیغام نظر آتا ہے کہ ہر خزاں کے بعد بہار ضرور آتی ہے۔