فضائی آلودگی اور ہمارے شہر

پاکستان کا آئین عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور یہ سماجی انصاف کی فراہمی کا بھی وعدہ کرتا ہے تاہم آئین ایک جذباتی دستاویز ہے کیونکہ اگر کوئی اسے صحیح معنوں میں پڑھتا اور سمجھتا ہے اور اس کے الفاظ اور وعدوں کو دیکھتا ہے، تو یہ رہنما اصول متعین کرتا ہے۔ آئین لوگوں کو زندگی گزارنے کا بنیادی حق بھی دیتا ہے اور اس کے علاؤہ ایک صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول بھی فراہم کرتا ہے۔ اِس تناظر میں اگر کراچی سے پشاور تک ملک کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آئین کی کئی ایک شقوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔لاہور کا رخ کریں تو یہ وہ شہر ہے جو پاکستان کا تاج سمجھا جاتا ہے اور یہ پنجاب کا صوبائی دارالحکومت ہونے کے علاؤہ تاریخی و ثقافتی مرکز بھی ہے۔ لاہور کی عظمت و شان سے کسی کو انکار نہیں اور یہ صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول پر مشتمل ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے موسم خزاں کے آتے ہی لاہور شہر موٹی، آلودہ اور جانداروں کے لئے خطرناک ہوا کی چادر تلے ڈھک جاتا ہے اور پھر لاہور کی فضا میں سانس لینے کو مضر صحت قرار دیا جاتا ہے۔ اہل لاہور کے لئے یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ائر پیوریفائر جیسے مہنگے آلات کی خریداری ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ گزشتہ چھ برس کے دوران، اسموگ کی صورتحال بتدریج بدتر ہوتی جا رہی ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ حکومت کی طرف سے زندگی بسر کرنے کے حق کے دفاع کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔فضائی آلودگی کا مسئلہ سنگین ہے اور اِس کا وقتی نہیں بلکہ مستقل حل تلاش کیا جانا چاہئے۔ فضائی آلودگی کم کرنے کے لئے اگر پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بات چیت کرنی پڑے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ بات چیت آئین پاکستان کی شقوں پر عمل درآمد ہوگی اور آئین ہر پاکستانی کو زندہ رہنے کا حق اُور زندگی کی ضمانت دیتا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اسموگ کی بنیادی وجہ پر اتفاق تو پایا جاتا ہے لیکن اِس مسئلے کے حل کے لئے اتفاق رائے نظر نہیں آتا۔ بھارت کے پنجاب سے آنے والی ہوائیں اپنے ساتھ آلودگی بھی لاتی ہیں اور یہ آلودگی فصلوں کو جلانے، صنعتوں اور گاڑیوں سے اخراج ہونے والی آلودگی اور کم معیار کے ایندھن کے  استعمال کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ اِس بڑھتی ہوئی اسموگ کی یقینا بہت سی سائنسی وجوہات بھی ہوں گی۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ فیصلہ سازی کے مراحل میں مساوات اور سماجی انصاف کے وعدوں کو پورا نہیں کیا جا رہا۔ فضائی آلودگی سے سماجی اور طبی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ قابل غور ہے کہ لاہور میں فضائی آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح پر پاکستان سے زیادہ بیرون ملک تشویش کا اظہار ہو رہا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے تحفظ ماحول کے لئے کام کرنے والے کارکن خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اِس صورتحال کو خاطرخواہ اہمیت یعنی توجہ نہ دی گئی تو اِس سے صرف انسانوں ہی نہیں بلکہ دیگر جانداروں کی اموات بھی رونما ہوں گی۔فیصلہ سازوں نے عوام کی فضائی آلودگی سے بچانے کی بجائے اپنے دفاتر میں ائرپیوریفائرز لگانے کو زیادہ ضروری سمجھا ہے۔ افسرشاہی کے دفاتر میں جائیں تو فضائی آلودگی کم کرنے کے آلات فعال ملتے ہیں جنہیں یقینا قومی خزانے سے ادائیگی کرکے خریدا گیا ہوگا۔ یہ عدم مساوات اور سماجی ناانصافی اسموگ سے نمٹنے کے لئے مثبت اقدامات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عثمان اے ساہی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 ”اینیمل فارم“ نامی کتاب کے مصنف جارج اورویل نے لکھا تھا کہ ”تمام جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ حقوق رکھتے ہیں۔“ جیسے جیسے فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے اور ہمارے گردونواح میں پیارے شہر و دیہی علاقوں کی فضا سانس لینے کے لئے محفوظ نہیں رہی‘ تو یہ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور یہ خلاف ورزی وہی لوگ کر رہے ہیں جو آئین کے تحفظ اور اِس پر عمل کرنے کا حلف اُٹھاتے ہیں۔ انسانوں نے کرہئ ارض اور اِس کے وسائل کو آلودہ کر کے اپنی تباہی کا سامان کر لیا ہے اور دانشمندی اِسی میں ہے کہ حکومت اور عوام مل کر ماحول کی بحالی کے لئے قومی و صوبائی ترقیاتی ترجیحات سمیت اپنے معمولات پر نظرثانی کریں۔