ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آنے والے ہیں اور پاکستان کو ان کے متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لئے فوری اور احتیاط سے حکمت عملی تیار کرنی چاہئے۔ اپنے گزشتہ صدارتی دور حکومت میں ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں غیر متوقع اور اکثر محاذ آرائی والے بیانات پیچیدہ تعلقات کی عکاسی کرتے رہے۔ ان کے نکتہئ نظر میں دوٹوک تنقید، کبھی کبھار مصالحتی اشارے اور وقفے وقفے سے پاکستان کی تعریف کی جاتی رہی۔ ٹرمپ کے عوامی بیانات اور جذباتی ٹویٹس کی خصوصیت یہ رہی کہ وہ پاکستان کے بارے میں غیر یقینی کا شکار رہے۔ ٹرمپ کی تنقید بنیادی طور پر ان الزامات پر مرکوز تھی کہ پاکستان نے ”امریکی پیسہ لیا“ جبکہ مبینہ طور پر دہشت گردی کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔ اُن کے الفاظ تھے کہ ”وہ ہمارے لئے کچھ نہیں کرتے“ اور ”جھوٹ اور دھوکہ دہی“ کے الزامات عائد کئے۔ ان بے لاگ تبصروں میں یہ الزامات بھی شامل تھے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کو پناہ دی اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد کرنے میں غفلت برتی۔ اس کے برعکس، وہ کبھی کبھار پاکستان کی تعریف کرتے سنے اور دیکھے گئے۔ ایک بار پاکستانیوں کو ”شاندار لوگ“ قرار دیا اور انٹرویوز میں پاکستان کے کردار کو ”قابل قدر اتحادی“ کے طور پر تسلیم کیا۔ سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسا رہنما ہے جس کے پاس ”کوئی مستقل اصول نہیں، صرف جنون ہے“ لہٰذا پاکستان کو چاہئے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی ہٹ دھرمی کے ممکنہ اثرات سے بچنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ٹرمپ پاکستان کو بھارت کے ساتھ مضبوط اتحاد کرتے دیکھنا چاہتا ہے تو پاکستان کو اِس کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے، جس پر انہوں نے اپنی پچھلی مدت کے دوران بارہا زور دیا تھا اور امریکہ اور بھارت کے تعلقات کو ممکنہ طور پر ’بہترین دوست‘ اتحادوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔ بھارت کے بارے میں ان کے مؤقف کا اظہار بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کے بارے میں ان کے بیانات اور ری پبلکن ہندو اتحاد کے بارے میں ان کے گرمجوشی کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے۔ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کے تحت بھارت نواز مؤقف مزید گہرا ہو سکتا ہے جس کے لئے پاکستان کی جانب سے تعلقات کو متوازن بنانے کی ضرورت ہوگی۔ ایسے پلیٹ فارمز اور فورمز کا استعمال جہاں پاکستان علاقائی استحکام اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں اپنے کردار کو اجاگر کر سکے، بھارت کے بارے میں کسی بھی قسم کے تعصب کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ٹرمپ کی ممکنہ طور پر اقتدار میں واپسی چین کے بارے میں ان کے جارحانہ مؤقف کی بحالی کا بھی اشارہ ہے، جسے وہ بنیادی عالمی حریف کے طور پر دیکھتے ہیں، خاص طور پر تجارت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں اور مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چین کی برتری اور ترقی کا امریکہ کے پاس جواب نہیں۔ امکان ہے کہ ٹرمپ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کی اپنی پہلی مدتی حکمت عملی کو دوبارہ شروع کریں گے، جس کا بالواسطہ اثر پاکستان پر پڑ سکتا ہے اگرچہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی واپسی سے پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات متاثر نہیں ہوں گے لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو سست کرنے کے لئے بالواسطہ دباؤ کا خطرہ برقرار ہے تاہم پاکستان اس سی پیک منصوبے پر سمجھوتے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کے بجائے، اسے دونوں سپر پاورز کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے کے لئے درمیانی راستہ ابھی سے تیار اور تلاش کرنا چاہئے۔پاکستان کے لئے ایک اور اہم حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ وہ نئی ٹرمپ انتظامیہ میں اہم کردار ادا کرنے والی اہم شخصیات کے ساتھ تعلقات بنائے تاکہ ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان کے خلاف ممکنہ مخالفانہ جھکاؤ کم ہو سکے۔ ان کوششوں کے ساتھ پاکستان کو دیگر امریکی اسٹیک ہولڈرز بشمول کانگریس، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور بااثر تھنک ٹینکس کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا چاہئے تاکہ ایک اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر پوزیشن مستحکم کی جا سکے اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے پاکستان مخالف بیان بازی نہ ہو۔امریکہ میں اپنے عوامی تشخص کو بہتر بنانے کے لئے، پاکستانی تارکین وطن، کاروباری افراد اور این جی اوز کے ذریعے لابنگ کرنی چاہئے۔ امریکہ میں مثبت عوامی تاثر کو فروغ دے کر پاکستان ممکنہ پاکستان مخالف بیانات کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر نوید الہٰی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)