بہتر فیصلہ سازی

علمی لٹریچر اور تجزئیات کی دنیا کے معروف ڈیٹا بیس سکیماگو کے حالیہ تجزیئے کے مطابق یونیورسٹیوں کی جانب سے شدید مالی مشکلات کے باوجود پاکستان نے گزشتہ بیس سالوں میں متعدد شعبوں میں بین الاقوامی تحقیقی درجہ بندی میں نمایاں ترقی دیکھی ہے۔ مثال کے طور پر زراعت کے شعبے میں پاکستان سال 2000ء کے دوران 48 ویں عالمی درجہ بندی سے بڑھ کر 2023ء تک 15 ویں عالمی درجہ بندی تک پہنچ گیا ہے۔ معاشیات میں بھی اسی طرح کی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، جہاں ملک نے 96ویں سے 17ویں پوزیشن اور طبیعیات میں 59 ویں سے 23 ویں درجے تک ترقی کی ہے۔ اسی طرح بائیو کیمسٹری اور مائیکرو بائیولوجی میں پاکستان کی رینکنگ 62ویں سے بہتر ہو کر 21ویں اور کیمیکل انجینئرنگ میں 63ویں سے 20ویں نمبر پر آ گئی ہے۔ یہ کامیابیاں 2000 ء کی دہائی کے اوائل میں پہلے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور بعد میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے شروع کی گئی اصلاحات و کامیابیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان اصلاحات کا محور اعلیٰ تعلیم یافتہ فیکلٹی اور یونیورسٹیوں میں تحقیق پر مبنی تعلیمی کلچر کو فروغ دینا تھا، جس میں تعداد کے بجائے معیار پر توجہ دی گئی۔ ہزاروں طلبہ کو پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تربیت کیلئے امریکہ اور یورپ کی معروف یونیورسٹیوں میں بھیجا گیا، جس میں دنیا کے سب سے بڑے فلبرائٹ اقدام جیسے پروگراموں کی سہولت فراہم کی گئی۔ اس بات کو 
بھی یقینی بنایا گیا کہ اسکالرز کو وطن واپسی پر ایک لاکھ ڈالر تحقیقی گرانٹ فراہم کی جائے۔ مزید برآں، اسکالرز نے ایک جامع ڈیجیٹل لائبریری کے ذریعے بین الاقوامی ادب تک مفت رسائی حاصل کی اور ملک بھر میں جدید تحقیقی آلات کو بغیر کسی لاگت کے پڑھ اور اسے بطور حوالہ استعمال کرسکتے ہیں۔ تعلیمی معیار کی یقین دہانی کیلئے جدید اقدامات پر عمل درآمد کیا گیا، جس میں بین الاقوامی تعاون کے ساتھ تقسیم شدہ پی ایچ ڈی پروگرام، غیر ملکی ماہرین کی طرف سے مقالہ جات کی تشخیص اور ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں کوالٹی ایشورنس سیلز کا قیام شامل ہے۔ اس کے نتیجے میں بین الاقوامی درجہ بندی میں بے مثال بہتری اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے بنیادی ڈھانچے میں ہدف شدہ سرمایہ کاری ترقی پذیر ملک کو عالمی سطح پر لے جا سکتی ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام میں ایک اہم مسئلہ غیر معیاری یونیورسٹیاں ہیں، جن میں مالی یا سیاسی فائدے کیلئے مناسب فیکلٹی یا انفراسٹرکچر موجود نہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی بہت سی یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں جاری کر رہی ہیں‘ اس لعنت کو روکنے کیلئے کابینہ نے 2001ء میں پالیسی تشکیل دی اور اس کی منظوری بھی دی جس میں کم از کم ضروریات کے بارے میں بتایا گیا کہ کسی تعلیمی ادارے کو ڈگری دینے والا ادارہ یا یونیورسٹی بننے کیلئے چارٹر کیلئے درخواست دینے سے پہلے کم از کم ضروریات کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ان ضروریات میں زمین، عمارتیں، فیکلٹی، بنیادی ڈھانچہ، لائبریری اور دیگر سہولیات شامل ہوتی ہیں۔ اداروں کو تقریبا دو سال کا وقت دیا گیا اور تمام غیر معیاری اداروں کو وارننگ جاری کی گئی کہ وہ یا تو ان کم از کم معیارات پر پورا اتریں یا اپنے چارٹر (اجازت نامے) واپس لینے کیلئے تیار رہیں۔ ان پابندیوں نے بہت سے سیاست دانوں اور سرمایہ کاروں کو ناراض کیا جو معیار کے پہلوؤں پر غور کئے بغیر غیر معیاری اعلی تعلیمی اداروں کو پیسہ کمانے والی مشینوں کے طور پر استعمال کر رہے تھے تاہم، زیادہ تر اداروں نے خود کو بہتر بنایا جبکہ مٹھی بھر دیگر ایسا کرنے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں اعلی تعلیم کی تاریخ میں پہلی بار چارٹر واپس لئے گئے اور کیمپس بند کر دیئے گئے۔ جن لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور جنہیں کرپٹ سیاست دانوں کی حمایت حاصل تھی، ان کی فہرستیں قومی اخبارات میں شائع کئے گئے۔ پاکستان کے اعلیٰ تعلیم کے منظرنامے میں 2002 ء میں شروع کی جانے والی اصلاحات کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی تھی۔ تحقیق کے مطابق 2018ء میں پاکستان میں عالمی سطح پر تحقیقی مضامین لکھنے میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن 
برائے سائنس و ٹیکنالوجی برائے ترقی (یو این سی ایس ٹی ڈی) نے سائنسی انفراسٹرکچر اور جدت طرازی میں پاکستان کی ترقی کو تسلیم کرتے ہوئے اس پیش رفت کو ’حیرت انگیز‘ قرار دیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کے شعبے میں حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ایک ڈیجیٹل سوسائٹی میں تبدیل ہو چکا ہے اور آئی ٹی کا شعبہ معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ چھ ہزار کلومیٹر طویل فائبر آپٹک نیٹ ورک جیسا انٹرنیٹ فراہم کرنے والا بنیادی ڈھانچہ شہری اور دیہی علاقوں کو جوڑے ہوئے ہے، یہ ڈیجیٹل تقسیم کو کم کئے ہوئے ہے اور اس کی وجہ سے جامع ترقی کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ ٹھوس تحقیقی ماحول قائم کرنے کے بعد، اب ہمیں اپنی تحقیقی کوششوں کو یونیورسٹی اور صنعت کے روابط قائم کرکے سماجی و اقتصادی ترقی کیق عمل سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اسٹارٹ اپس کو فروغ دینے اور وینچر کیپیٹل پیش کرنے کیلئے بڑے قومی فنڈز تشکیل دے کر اس طرح کے روابط کو آسان بنانا چاہئے۔ جدت اور انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے کے لئے تمام یونیورسٹیوں میں ٹیکنالوجی پارک قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کی طرف منتقل ہونا ہوگا اور ہمیں موجودہ فرسودہ ترقیاتی پالیسیوں کو ترک بھی کرنا ہوگا جو علم پر مبنی ہونے کے بجائے قدرتی وسائل پر منحصر ہیں۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر، یونیسکو سائنس انعام یافتہ اور بانی ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمان۔ ترجمہ ابوالحسن امام)