توجہ طلب امور

نئی نسل کے بعض غیر ذمہ دار نوجوان اس تیز رفتاری سے موٹر سائیکلیں چلا رہے ہیں کہ خود بھی گر کر معذور ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی زخمی کرتے ہیں‘ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کے سامنے سے تیز رفتار گاڑیاں اور موٹر سا ئیکلوں پر بغیر ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل سوار گزرجاتے ہیں اور ون ویلنگ کرتے ہیں‘پر مجال ہے کہ وہ ان کو گرفتار کر کے تھانے کی سیر کرائیں۔ بالکل اسی طرح پڑھا لکھا ہویا ان پڑھ‘ اور کسی بھی طبقے سے اس کا تعلق کیوں نہ ہو ہر دوسرے شخص نے ہاتھ میں موبائل خواہ مخواہ تھاما ہوا ہوگا اور یا تو اس نے اسے کانوں کے ساتھ لگایا ہو گا اور یا پھر اس کی آنکھیں اس پر جمی ہونگی‘ حتیٰ کہ ڈرائیور حضرات بھی ڈرائیونگ کی طرف کم اور موبائل سکرین کی طرف زیادہ دیکھتے ہیں تو پھر اس صورتحال میں ٹریفک کے حادثات کیوں نہ ہوں‘ عام آدمی کی سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ ان دو لعنتوں سے قوم کی جان کیسے اور کب چھوٹے گی؟اصولی طور پر تو موبائل ان لوگوں کے پاس ہونا چاہئے جن کی نوکری ہنگامی نوعیت کی ہو جیسا کہ پولیس سروس‘ہسپتال میں متعین میڈیکل کا عملہ وغیرہ نہ 
کہ ہر نتھو خیرے کے پاس اور 16 برس سے کم عمر کے بچوں کے پاس تو یہ ہونا ہی نہیں چاہئے کہ اس پر جو مواد دکھایا جاتا ہے وہ معاشرے میں بے راہ روی پھیلا رہا ہے‘افسوس کہ اکثروالدین نے بھی اپنے بال بچوں کو اس ضمن میں کھلی چھٹی دے رکھی ہے‘ان دو قباحتوں کے ساتھ ساتھ منشیات کی لعنت بھی وطن عزیز کی جوان نسل میں پھیل رہی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ والدین کی غفلت ہے وہ بچوں کو روز پاکٹ منی تو دے دیتے ہیں لیکن پھر ان سے پوچھتے نہیں کہ وہ کیسے اور کہاں خرچ کی گئی اور نہ ہی وہ باقاعدگی سے ان کے اساتذہ سے رابطے میں رہتے ہیں‘چرس اور آ ئس نامی منشیات کا استعمال کالجوں میں عام ہے‘ ان دو لعنتوں کو ارباب اقتدار جتنا جلدی ختم کریں اتنا ہی بہتر ہے‘ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ سندھ‘ پنجاب یا اسلام آباد کے ارباب اقتدار اپنے علاقوں میں امن عامہ قائم رکھنے کے واسطے فرنٹیئر کانسٹیبلری اور فرنٹیئر کور کے دستے پولیس کی معاونت کیلئے اکثر بلاتے رہتے ہیں جو بات اکثر لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ آخر یہ صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کے حکام اپنی اپنی پولیس کو مستعد اور فعال کیوں نہیں بناتے اور اگر ان کی پولیس کی نفری کم ہے تو اس میں حسب ضرورت اضافہ کیوں نہیں کرتے بار بار فرنٹیئر کانسٹیبلری اور فرنٹیئر کور کے دستے منگوا ئے سے ان دو اداروں کے اپنے فرائض منصبی میں خلل پڑتا ہے۔