عالمی اقتصادی غیر یقینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ترقی پذیر ممالک طویل مدتی معاشی ناکامیوں کو کم کرنے اور معاشی بحالی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کم آمدنی والے ممالک پائیدار خوشحالی کے حصول کے لئے معاشی حکمت عملی تبدیل کر رہے ہیں جن میںپیداواری صلاحیت، تکنیکی ترقی اور جدت طرازی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ میک کنزی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ایشیا میں ابھرتی ہوئی معیشتوں نے خود کو تکنیکی پلیٹ فارمز، وسائل کے انتظام، توانائی کے حل اور سرمائے کی ترقی میں رہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔ مختلف خطوں میں آبادی کے معاشی اثرات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ایشیا کی شہری آبادی 2030ءتک 1.6 ارب سے بڑھ کر تین ارب ہونے کی توقع ہے۔ جغرافیہ، ایک بڑی آبادی اور رابطے کس طرح اقتصادی کامیابی کو آگے بڑھا سکتے ہیں اس کی ایک اہم مثال چین ہے۔ گلوبل سرمایہ کاری کے منظرنامے کو نئی شکل دینے والے لوکلائزیشن، قریب شورنگ اور فرینڈ شورنگ جیسے رجحانات کے ساتھ، ایشیا 2050ء تک عالمی معیشت کا مرکز بننے کے لئے تیار ہے اگرچہ یہ عالمی رجحانات ترقی کے مواقع پیش کر رہے ہیں لیکن وہ گھریلو سیاسی اور معاشی چیلنجوں کو تیز تر توجہ میں بھی لاتے ہیں، جن میں کم پیداواری صلاحیت شامل ہے۔ یہ پاکستان کے لئے اہم وقت ہے کہ وہ اپنی ترقی کے راستے پر نظر ثانی کرے اور بین الاقوامی رجحانات سے ہم آہنگ ہو۔ کم آمدنی کے چکر کو توڑنے اور مستقبل کی بنیاد پیداواری صلاحیت اور جدت پر توجہ مرکوز کرنے سے مستقبل کے لئے اسٹیج مرتب ہوگا جس کے لئے ملک کے صنعتی اور معاشی ڈھانچے، قابل تجدید توانائی کے اقدامات اور تکنیکی جدت اپنانے میں بتدریج لیکن مستقل ترقی کی ضرورت ہوگی۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین پاکستان میں سب سے بڑا سرمایہ کار رہا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے چین نے نہ صرف پاکستان کی توانائی کی کمی کو دور کرنے میں مدد کی ہے بلکہ گوادر پورٹ سمیت اہم بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی کی ہے، جو پاکستان کی بلیو اکانومی کا سنگ بنیاد ہے۔ کوسٹل ہائی وے کے ذریعے گوادر کے اندرونی علاقوں سے اسٹریٹجک رابطہ اور حال ہی میں آپریشنل ہونے والے گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ذریعے عالمی منڈیوں سے اس کا رابطہ ہوا ہے جسے 230 ملین ڈالر کی چینی گرانٹ سے اعانت فراہم کی گئی ہے۔ چین نے خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) اور گوادر فری زون کے اندر پروسیسنگ اور مینوفیکچرنگ انڈسٹریز کے قیام پر بھی توجہ دی ہے۔ سی پیک کے اگلے مرحلے میں میگا منصوبے شامل نہیں ہوں گے لیکن اس میں بدلتے ہوئے عالمی رجحانات، علاقائی ضروریات اور پاکستان کی اقتصادی ترجیحات سے ہم آہنگ اقدامات شامل ہوں گے تاہم ابھرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظرنامے نے سی پیک کی ترقی کے لئے اہم چیلنجز پیدا کئے ہیں، خاص طور پر سکیورٹی خدشات اور بیانیے سے متعلق مسائل جیسا کہ حالیہ دہشت گرد حملے اور امریکہ اور چین کی دشمنی کے وسیع تر تناظر میں سی پیک اور بی آر آئی مخالف جذبات اور اِس سے متعلق بحث دیکھنے میں آئی ہے۔ اس نئے مرحلے پر بات چیت کرتے ہوئے موجودہ چینی سرمایہ کاروں کی حمایت اور ان کے خدشات کو دور کرنا ضروری ہے جو نئے نجی یا سرکاری اداروں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ان اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت ضروری ہے۔ ٹیکنالوجی پر مبنی حل کے ذریعے سکیورٹی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانا، خاص طور پر ایس ای زیڈ اور میگا انرجی پراجیکٹس جیسے اہم شعبوں میںیکساں اہم و ضروری ہے۔ مزید برآں، ایم ایل ون ریلوے منصوبے جیسے بڑے پیمانے کے منصوبوں کے لئے بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور فنانسنگ ماڈل کو بھی اپنایا جانا چاہئے۔ واضح سنگ میل کے ساتھ اس طرح کے منصوبوں کو قابل انتظام مراحل میں تقسیم کرنے سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور مستحکم، قابل پیمائش پیشرفت کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔چین اور پاکستان چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) اور پاکستانی کاروباری اداروں کے درمیان خاص طور پر انجینئرنگ، آٹوموٹو، آئی ٹی، کیمیکلز، ٹیکسٹائل اور زراعت پر مبنی صنعتوں جیسے شعبوں میں تعاون کر سکتے ہیں اور اِس کے بے پناہ امکانات بھی موجود ہیں۔ چینی ایس ایم ایز اور اسٹارٹ اپس کو سیاحت اور تعلیمی اقدامات کے ذریعے پاکستان کا دورہ کرنے کی ترغیب دینا سرمایہ کاری کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ پاکستانی تاجر برادری کو ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دینی چاہئے۔ چینی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے سی پیک کے تحت ہائی ٹیک ایجوکیشن سٹی کا قیام ایک انقلابی قدم ہوسکتا ہے۔ پاکستان ویت نام، لا¶س، ملائیشیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کی طرح براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو راغب کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے مزید برآں، پاکستان میں سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کا تناسب علاقائی اوسط سے کافی کم ہے۔ سرمایہ کار، چاہے وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی، نجی ہوں یا سرکاری، پاکستان کی بڑی مارکیٹ کے سائز اور وافر انسانی اور معدنی وسائل کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ انہیں ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہے جس میں عملی حکمرانی، مالی اور ذاتی تحفظ شامل ہوں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر حسن داو¿د بٹ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)