ہم نے بار بار پڑھا اور سنا ہے کہ یو رپ میں نشاۃ ثا نیہ کی تحریک چلی تو علم و فنون کو فروغ ملا اٹلی کا سفر کر کے روم اور اس کے مضا فات میں گھوم پھر کر یورپ کی نشاۃ ثا نیہ کو ایک سیاح آنکھوں سے دیکھتا ہے اور محسوس کر تا ہے کہ کسی قوم کے درخشان ماضی کو کرید کر اس کے کھنڈرات کی بجھی ہوئی راکھ میں چھپی ہوئی چنگاریوں کو کس طرح تلا ش کیا جاتا ہے اور ”ایسی چنگا ری بھی یارب اپنی خا کستر میں تھی“ کا نعرہ مستانہ بلند کر کے قوم کی گذری ہوئی عظمت کو کس طرح دو بارہ واپس لا یا جاتا ہے خو ابیدہ صلا حیتوں کو کیسے بیدار کیا جاتا ہے، روم، جینوا(Genoa)، وینس، نیپلز، میلان اور فلو رنس اٹلی کے ایسے شہر تھے جو وسیع تر رومی سلطنت میں بین لاقوامی تجا رت کے مرا کز تھے، سوداگری کے ساتھ تہذیب اور ثقا فت کا تبا دلہ بھی ہو تا تھا اس تبا دلے میں حکمران قوم کی تہذیب کا پلہ ہمیشہ بھاری ہوا کر تا تھا؛ پا نچویں صدی عیسوی میں رومی سلطنت کا زوال شروع ہو ا، زوال کے دور میں مشرقی یو رپ سے مشرق وسطیٰ تک الگ سلطنت بنی جو رومیوں کی ہی سلطنت تھی مگر باز نطینی باد شا ہت کہلا تی تھی ترکی، شام، عراق اور مصر بھی اس کے ما تحت تھے، 476عیسوی سے لیکر 1453ء تک یہ صورت حال رہی 1453ء میں عثمانی خلافت کی افواج نے با زنطینی تخت و تاج کو قسطنطینہ (استنبول)میں شکست فاش دے کر ان کے اقتدار کا خا تمہ کیا، رومیوں کے زوال کا یہ دور کم و بیش ایک ہزار سال پر محیط ہے اس دور کو یورپ کا تاریک دور کہا جاتا ہے، یو رپ کو تاریکی سے نکا لنے کے لئے جو تحریک چلی وہ علم و ادب اور فنون لطیفہ کی تحریک تھی تاریخ میں اس کو نشاۃ ثا نیہ کا نا م دیا گیا، یہ لفظ فرانسیسی زبان سے ما خوذ ہے اور اس کا مطلب ہے کھو ئی ہوئی طا قت کو دوبارہ حا صل کرنا اس تحریک کے دو مقا صد تھے پہلا مقصد یہ تھا کہ سیا ست میں رومیوں کے عروج کا دور واپس لا یا جا ئے، دوسرا مقصد یہ تھا کہ علم و ادب اور فنون لطیفہ کے ذریعے رومیوں کی عظمت رفتہ کو دوبارہ زندہ کیا جائے، دوسرے مقصد کے لئے کیتھو لک چرچ نے بھر پور تعاون کیا چنا نچہ یہ مقصد حاصل ہوا، گیلیلو (Galileo)، لیونارڈو، ما ئیکل اینجلو کے کا موں نے اٹلی کو ایک بار پھر دنیا کے تہذیبی نقشے پر نما یاں کیا لیونارڈو ڈی وینچی (Leonardo Da Vinci) اور مائیکل اینجلو (Michel Angilo) فنون لطیفہ، آرٹ اور مجسمہ سازی میں ایک دوسرے کے مد مقابل تھے اس مقا بلے اور مسا بقے نے فنون لطیفہ میں اٹلی کا نا م بلند کیا، گیلیلو (Galileo) نا مور سائنسدان، ما ہر فلکیات اور سائنسی تجر بات کا ما ہر تھا، وہ اپنے تجر بات کی بنیاد پر ایسے نظریات کا پر چار کر تاتھا جو چرچ کے روایتی، قدیمی تصورات سے مختلف بلکہ متصادم تھے اس وجہ سے اس کو زندان میں ڈالا گیا تھا 9سال قید تنہا ئی میں گذار کر وہ دنیا سے چل بسا، 1633ء میں قیدہوا، 1642ء میں مر گیا اُس کے مرنے کے بعد چرچ نے مان لیا کہ اس کے سائنسی تجر بات درست تھے زمین ساکن نہیں بلکہ سورچ کے گرد گردش کر تی ہے اور دوسرے سیا رے بھی اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں نیز یہ کہ دنیا گول ہے، اس طرح کے تجر بات کو تسلیم کیا گیا، نشاۃ ثا نیہ کے علم برداروں نے چرچ کی مدد سے یونانی علوم کے تراجم پر کام کیا، افلا طون، ارسطو، سقراط اور دیگر حکماء کی کتا بوں کے ترا جم ہو ئے، مزید سائنسی تجر بات ہوئے، عباسی خلیفہ ہارون الر شید نے بغداد میں یو نا نی اور عربی کتا بوں پر کام کا مر کز بیت الحکمت قائم کیا تھا اُس وقت یعنی آٹھویں صدی عیسوی میں علماء کے ایک معتبر گروہ نے اس کام کی مخا لفت کی تھی بیت الحکمت بغداد سے یونانی علوم کے ساتھ عربی علوم کو پہلے ہی فلو رینس منتقل کیا گیاتھا، چنا نچہ جا بر بن حیان متو فی 815ء، ابو مو سیٰ الخوارزمی متوفی 850ء اور بعد میں آنے والے حکماء بو علی سینا متوفی 1037ء ابن خر دا بہ متو فی 1406ء المقدسی متو فی991ء کی کتا بوں کے ترا جم شائع کئے گئے علا مہ اقبال نے 1908ء میں اس کی طرف اشارہ کیا وہ علم کے مو تی کتا بیں اپنے ابا کی، دیکھتا ہوں یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ، نشاۃ ثا نیہ کی اس تحریک کے دوران یورپ کے تہذیبی اور ثقا فتی مر کز کی حیثیت سے فلو رینس کو دنیا بھر میں شہرت ملی، چرچ کے اوپر قدامت پر ستی کا جو داغ لگا تھا وہ دھل گیا، اٹلی کا نام ایک بار پھر دنیا میں روشن ہو ا، نشاۃ ثا نیہ کا دور سترہویں صدی تک جا ری رہا۔