الماری کی دراز میں وی سی آر کے کیسٹس دیکھ کر لبوں پر مسکراہٹ آگئی‘ وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانہ تھا جب بازاروں میں وی سی آر کے کیسٹس کرائے پر ملتے تھے یا پھر لوگ اپنی پسند کی فلم کے کیسٹ خرید لیتے تھے یہاں تک کہ وی سی آر بھی کرائے پر مل جاتا تھا ٹیکنالوجی کی ترقی کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا اور پھر پورا خاندان مل کر وی سی آر پر فلم دیکھتا تھا دوست ویک اینڈ پر فلم دیکھنے کا پروگرام بناتے تھے بعض کیسٹس اتنے گھس چکے ہوتے تھے کہ وی سی آر پر پیچھے فلم اور آگے لمبی لکیریں چلتی رہتی تھیں ایک خاص کیسٹ ہوتا تھا جس سے وی سی آر کو صاف کرنے کیلئے لگایا جاتا تھا لوگ اپنی پسند کی فلم کا اوریجنل ورژن ڈھونڈنے میں کتنا وقت صرف کر دیتے تھے شاید انٹرٹینمنٹ کے کچھ محدود ذرائع میں وی سی آر بھی شامل تھا پھر ڈی وی ڈی کا زمانہ آگیا آج بھی بالکل نیو پیک ڈی وی ڈی یلیئر میری دراز میں آرکائیو کا منظر پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے اسکے ساتھ میں دلیپ کمار کی فلموں کے کچھ اوریجنل کیسٹس وی سی آر کے پڑے ہیں کبھی موقع ملا تو کسی آرکائیوز کو تحفہ دے دونگی اوریہ زمانہ زیادہ دور کا نہیں ہے یہی کوئی30/25 سال پہلے۔ دیکھا جائے تو اس کو پرانا زمانہ کہنا بذات خود ہنسی کا موجب ہے لیکن اسی اکیسویں صدی میں سائنس ٹیکنالوجی قلانچیں مارتی ہوتی کہاں تک جا پہنچی ہے۔ 1990ءمیں کولمبو کے ایک تربیتی کورس میں فوٹو سیشن دیکھ کر مجھے حیرانگی ہوئی تھی کیونکہ ہماری براڈ کاسٹنگ اکیڈمی میں اس مشین کا کوئی نام ونشان نہ تھا بلکہ سچ کہوں تو میں نے نام بھی نہیں سنا تھا‘ سری لنکا ہم سے زیادہ ترقی یافتہ تھا وہاں میں نے کمپیوٹر کلاسز بھی لی تھیں اور ماﺅس کو کنٹرول کرنا بھی سیکھا تھا اور پھر1998ءمیں نیپال جیسا غریب ملک بھی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ہم سے زیادہ آگے تھا لیکن یہ سی ڈیز کا زمانہ تھا کیونکہ میں نے نیپال میں موجود اپنے سفیر کو فوک میوزک سی ڈیز میں دیا تھا جبکہ اپنی گاڑی میں پاکستانی ہندوستانی میوزک کیسٹس پر سنا کرتی تھی بعد میں یہ بھی سی ڈیز میں تبدیل ہوگیا تھا ریڈیو میں فوٹو مشین بہت بعد کے سالوں میں آئی وہ بھی اتنی محدود تھی کہ کوئی اپنا ذاتی پیپر فوٹو کاپی نہیں کروا سکتا تھا خیر یہ تو ریڈیو کے فنانس کا ہمیشگی کامسئلہ ہوتا تھا جب میں نے براڈ کاسٹنگ اکیڈمی میں اپناکیرئیر شروع کیا تو وہاں سائیکلواسٹائل مشینیں ہوتی تھیں ایک خاص قسم کا پیپر ہوتا تھا جس کو خوشخط لکھا جاتا تھا‘ بعدازاں اسی کے ذریعے سائیکلو اسٹائل مشین پر مزید کاپیاں بنائی جاتی تھیں اس مشین کو ہاتھ سے چلایا جاتا تھا اور کاپیوں کی چھپائی کی کوالٹی بتدریج خراب ہوتی جاتی تھی‘ فیکس مشین مجھے حیران کردیتی تھی اور آج تک بھی یہ واحد مشین ہے جو مجھے ہمیشہ اپنے حیرت انگیز کام کے ذریعے حیران کرتی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں پشاور میں ایک مشین میں کاغذ ڈالتی ہوں ایک نمبر ڈائل کرتی ہوں اور امریکہ میں وہ کاغذ اسی وقت میں نکل آتا ہے حیرت انگیز ‘ کتنے فطین لوگ ہوتے تھے وہ لوگ جو حیرت انگیز ایجادات ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں الیگزنڈر بین کو واقعی اس لحاظ سے دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی جس نے بجلی کا ٹیلی گراف سسٹم ایجاد کیا اور وہ بھی1843ءمیں جبکہ اس کو کمرشل حیثیت1964ءمیں باقاعدہ طورپر ملی‘ ہمارا ریڈیو پاکستان تو باقاعدہ عجائب گھر کے طورپر پیش کیا جاسکتا تھا جس میں دنیاکے قدیم ترین سپول مشینیں‘ ٹرن ٹیبل‘ مائیکروفونز‘ ریکارڈر‘ لمبی ریکارڈنگز اور چھوٹی ریکارڈنگز والے‘ سائیکلواسٹائل مشینیں‘ اور نہ جانے کیا کیا بھرا پڑا ہوتا تھا‘ بھلا ہو ان پیارے لوگوں کا جنہوں نے کئی مرتبہ اس نادر و نایاب سامان کو کباڑیے کے ہاتھوں کوڑیوں کے مول فروخت کیا‘ ہم لوگ بے بس ہوتے تھے جونیئر موسٹ ہوتے تھے بول نہیں سکتے تھے‘ کئی مشینوں کو دل چاہتا تھا میں خود خرید لوں لیکن ظاہر ہے اس کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور پھر خوف بھی آتا تھا کوئی مورد الزام نہ ٹھہرا دے‘ آج سے20سال پہلے بھی سمارٹ فون موجود نہ تھا نوکیا کاوئے والا فون لوگ استعمال کرتے تھے اس کی دوانچ کی سکرین پر نظریں لگائے ایس ایم ایس دیکھا کرتے تھے کچھ ہماری عمروں کے لوگوں نے تو نئی ٹیکنالوجی کو دیکھنے سے ہی انکار کردیا تھا یا باوجود کوشش کے بھی سیکھ نہ پاتے تھے ان کو اپنا یہ مضبوط مارکہ قسم کا نوکیا بڑا پسند تھا‘ آج بھی میرے پاس پرانے والے کئی فونز الماری میں پڑے ہیں جو ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد مسکرانے پر مجبور کرتے ہیں‘ پھر ایک زمانہ آیا بلیک بیری امارت دولت اور شان و شوکت کی علامت سمجھے جانے لگا جس کے ہاتھوں میں بلیک بیری ہوتا لوگ حیرت سے اس کو دیکھتے سنا ہے شہید بے نظیر بھٹو کے پاس بھی بلیک بیری ہوتا تھا‘ پھر اپنے اسٹاک میں دو بلیک بیری دیکھ کر ہمیشہ دل خوش ہوتا ہے ہمارے گھرمیں70اور80 کی دہائی میں روسی ٹیلی ویژن سیٹ ہوتا تھا اس کی پتلی پتلی لکڑی کی چار ٹانگیں ہوتی تھیں لیکن اس کا توازن کمال کا تھا کبھی وہ گرا نہیں آج کی نئی نسل تصور نہیں کر سکتی کہ ہم خود اٹھ کر اس کی آواز اونچی نیچی کرتے تھے تصویر کو بٹن کے ذریعے ایڈجسٹ کرتے تھے چینل کو ہاتھ سے بٹن دبا کر تبدیل کرتے تھے ہمارے لئے تو یہ حیرت انگیز ہی تھا کہ ریڈیو کے ڈبے کے ساتھ ایک ایسا ڈبہ آگیا ہے جس میں تصویر حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہے آپ کہیں گے یہ بھی شاید100سال پہلے کی بات ہے نہیں یہ بھی30/35 یا پھر زیادہ سے زیادہ چالیس سال پہلے کی بات ہے ہاتھوں سے کوٹنے والے مصالحہ جات کومشینوں نے سیکنڈز میں تبدیل کر دیا‘ آٹا گوندھنے والی مشین نے خواتین کو اور زیادہ سہولت دے دی مجھے بھی بہت سارے ماں باپ کی طرح یاد ہے کہ بچوں کو کہا جاتا تھا چلو جاﺅ باہر جا کر کھیلوں اور وہ واقعی میں پارکوں میں گلیوں میں کھیلنے چلے جاتے تھے آﺅٹ ڈور کھیل کھیلتے تھے اور تھک ہار کر پسینے سے شرابور واپس آتے تھے اب بچے کیا کرتے ہیں آپ کو مجھے اچھی طرح علم ہے‘ وہ زمانہ تھا جب بچے بڑے نہروں پر جاتے تھے‘ چشموں پر جاتے تھے‘ پکنک کرتے تھے کھانے بناتے تھے وقت کہیں جاکر گزرتا تھا اور دوست جگری ہوتے تھے پشاور میں تو دوست کو جگر کہنے کا رواج تھا‘ ٹیکنالوجی نے یہ سب کچھ ہم سے ہاتھ مار کر چھین لیا ہے‘ ٹیکنالوجی کے فائدے بہت ہےں لیکن آپس میں دوستی کے رشتوں کے مضبوط بندھن اس طرح مضبوط نہیں رہے شادیوں کا موسم جب بھی آتا ‘ خواتین سدہ لے کر اپنے دوستوں رشتہ داروں کے گھر خود شادی کا پیغام دینے جاتیں دروازہ کھولتے تو پھولوں کے ہاروں سے لدی پھندی دو تین خواتین نئے نویلے کپڑوں میں خوش خوش اندر داخل ہوتیں اپنے بچے بچی کی شادی کا دعوت نامہ اپنے ہونٹوں سے ادا کرتیں گھر والی ان کو سدہ دیتی‘ یعنی پھولوں کے پیسے دیتی کہ جو عزت اور قدر کا نشان ہوتا تھا اور اسی طرح وہ ٹولیوں کی صورت میں مختلف علاقوں میں بسنے والے رہنے والے اپنے رشتہ داروں کے گھر جاتیں پھر خوشی سے اپنے سدے کی رقم گنتیں ‘کیا ہمارے زمانے تھے اور اب وٹس ایپ مسیج کے ذریعے پیغام مل جاتا ہے ایک ٹک ہوتی ہے فون کھولو تو پتہ لگتا ہے کزن کی شادی ہے یہ وقت ہے یہ تاریخ ہے پہنچنا ضروری ہے۔