کرم کے حالات کو فوری طور پر درست کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور گورنر دونوں کو یک جان دو قالب ہو کر ذاتی رنجشیں بھلا کر تعاون کا مظاہرہ کرناہوگا کچھ عرصہ پہلے تک تو چونکہ کرم فاٹا کا حصہ تھا اس کا نظم ونسق گورنر کے ہاتھ میں تھا اب چونکہ فاٹا کو خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم کر دیا گیا ہے جس سے کرم ضلع کے انتظامی معاملات امن عامہ کے حوالے سے متاثر ہو سکتے ہیں جو ارباب اقتدار کی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں‘سابقہ فاٹا میں کہ جو اب خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم ہو چکا ہے اور اب وہاں کے منتظم کو پولیٹکل ایجنٹ کے بجاے ڈپٹی کمشنر کہا جاتا ہے میں ضلعی ناظم کی تعیناتی میں بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے اور صرف اسی سول سرونٹ کو ضلع کا منتظم لگایا جائے جس کا قبائلی علاقوں میں میں کام کرنے کا تجربہ ہو اور جو وہاں کے رسم و رواج کو جانتا ہو اور جو اچھی عمومی شہرت کا مالک بھی ہو۔اس کا قبائلیوں کے رسم و رواج سے بھی اچھی طرح واقف ہوناضروری ہے‘اگر آپ فاٹا کی سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ فاٹا کے باسیوں کی اکثریت وطن عزیز سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ ان ابتدائی کلمات کے بعدآتے ہیں آواز کی دنیا کی طرف۔دنیا میں یوں تو ہر ملک کا اپنا ریڈیو سٹیشن ہے پر ریڈیو براڈ کاسٹنگ میں جو مقام بی بی سی ریڈیو کو حاصل ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آ یا ٹیلی ویژن کے عاقپر بی بی سی ریڈیو کا آج بھی وہی پرانا مقام اپنی جگہ قائم ہے اور بی بی سی ٹیلی وژن کے آنے کے بعد بھی اس کی کوئی اثر نہیں پڑا‘ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عوامی مقبولیت کے لحاظ سے بی بی سی ٹیلی ویژن کے تمام پروگراموں سے زیادہ سننے والے پروگرام کا نام ہےtoday ٹو ڈے ہے جو بی بی سی ریڈیو سے نشر ہوتا ہے اور جس کی مقبولیت پر کسی اور پروگرام نے اثر نہیں ڈالا اور برطانیہ کے عوام آج بھی اسے اسی شوق اور انہماک سے سنتے ہیں کہ جس لگن کے ساتھ وہ اسے آج سے پچاس سال قبل سنا کرتے تھے‘64ء تک کہ جب پی ٹی وی منظر عام پر نہیں آیا تھا ریڈیو پاکستان ہی وطن عزیز کا واحد نشریاتی ادارہ تھا جو ملک کے کونے کونے میں سنا جاتا تھا شکیل احمد مسعود تابش اور انور بہزاد اس کی خبروں کے پروگرام کے روح رواں تھے جو ہر گھنٹے کے بعد قومی نشریاتی رابطے پر قومی اور عالمی خبروں پر مشتمل خبریں براڈ کاسٹ کرتے جنہیں سامعین بڑے شوق سے سنتے اسی طرح اسلم اظہر ریڈیو پاکستان سے انگریزی زبان میں خبریں پڑھتے‘ کرکٹ ٹیسٹ میچوں پر عمر قریشی اور جمشید مارکر کی جوڑی جو رننگ کمنٹری نشر کرتے اس کا شمار بھی ریڈیو پاکستان کی مقبول ترین نشریات میں ہوتا تھا‘ زید اے بخاری کا نام لئے بغیر ریڈیو پاکستان کا ذکر نامکمل رہے گا‘بطور ایک اعلیٰ درجے کے براڈکاسٹر ان کا ایک اپنا مقام ہے جوہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘ ان کے کئی شاگرد براڈکاسٹروں نے فلمی دنیا میں بھی نام کمایا جیسا کہ آ غا طالش‘ محمد علی‘ مصطفےٰ قریشی ابراھیم نفیس وغیرہ۔ریڈیو پاکستان کے سامعین یہ محسوس کرتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے ارباب بست و کشاد ریڈیو پاکستان کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے کہ جتنی وہ پی ٹی وی کو دے رہے ہیں حالانکہ ریڈیو نشریات کو سننے والوں کا دائرہ بہت وسیع ہے کسی دور میں ریڈیو پاکستان کی ایکسٹرنل سروس بڑے موثر انداز میں وطن عزیز کے خلاف آل انڈیا ریڈیو اور کابل ریڈیو کے زہریلے پروپیگنڈے کا اپنی نشریات میں بڑا موثر جواب دیا کرتی تھی آج بھی وقت کا تقاضا ہے کہ ریڈیو پاکستان کی ایکسٹرنل سروس کو بحال کیا جائے اور اردو پشتو‘فارسی‘ بنگلہ اور دری زبان میں وطن عزیز کے خلاف اس کے دشمنوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کا پردہ چاک کیا جائے اور اس کے ٹرانسمیشن کی رینج مزید بڑھا دی جائے۔