یہ کیسے ممکن ہے کہ ہاکی کی بات ہو اور لالہ ایوب کا ذکر نہ کیا جائے لالہ ایوب کی بدولت پشاور بلکہ پورے خیبر پختونخوا میں ہاکی کی سرگرمیاں ایک لمبے عرصے تک بام عروج پر تھیں وہ انٹرنیشنل گریڈ ون کے ہاکی امپائر بھی تھے اور سپین کی حکومت نے ایک سال کے عرصے کیلئے ان کی خدمات بطور کوچ مستعاربھی لی تھیں اور انہیں اسپین منگوایا تھا تاکہ وہ سپین کی ہاکی ٹیم کی کوچنگ کریں ایک لمبے عرصے تک پشاور صدر میں واقع گرین ہوٹل پشاورہاکی کی سرگرمیوں کا مرکز تھا بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ پاکستان کی جس ہاکی ٹیم نے 1958 ءمیں ٹوکیو اولمپکس اور 1960 ءمیں روم میں ہونے والے ورلڈ اولمپکس میں سونے کے تمغے جیتے تھے اس کی سلیکشن میں لالہ ایوب کا کلیدی کردار تھا جب تک لالہ ایوب بقید حیات تھے ان کا پشاور صدر میں واقع گرین ہوٹل خیبر پختونخوا میں ہاکی کی سرگرمیوں کا ہیڈ کوارٹر رہا ‘ہاکی کے حوالے سے پشاور میں عبد الباقی ‘تجمل حسین ‘ ایس ایل آر شاہ‘ افسوس آج ان میں سے کوئی بھی ہم میں موجود نہیں۔ لوگ ان کو three musketeers کہا کرتے یہ تینوں ایک تکون کی مانند تھے‘ ہاکی سے لگاغالباًان کو لالہ ایوب کے قریب لے آیا تھا،جو خود بھی ہاکی کے آ سمان کے ایک درخشاں ستارے تھے ۔عبد الباقی اور تجمل حسین بھاری بھر کم تھے ‘جب کہ ایس ایل آ ر شاہ قلم کی طرح باریک‘ آج تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ ایس ایل آ ر شاہ کس نام کا مخفف تھا ‘ان تینوں کی شامیں اکثر گرین ہوٹل میں گزرتی تھیں جو لالہ ایوب کا مسکن تھا ‘ اپنے عہد شباب میں یہ لوگ ہاکی کے اچھے کھلاڑی تھے‘ لالہ ایوب نے تو 1936 ءکے برلن اولمپکس میں بھی شرکت کی تھی لالہ ایوب ایک طلسماتی شخصیت کے قدآور انسان تھے‘ دن بھر ان کے ہوٹل کا دروازہ عام و خاص لوگوں کے لئے کھلا تھا وہ عوام کے سرکاری دفاتر میں سرخ فیتے میں پھنسے کام نکلوانے ‘ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے ۔فراغ دلی کو اہل سادات کی ایک خاصیت بتایا گیا ہے اور لالہ ایوب جو سید تھے ان میں یہ خاصیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ اپنی دھن کے پکے تھے۔
‘ساری زندگی آخری دم تک ایک ہی سیاسی پارٹی سے جڑے رہے ۔بنگلہ دیش کے قیام میں اگر ایک طرف بھارت اور سابقہ مشرقی پاکستان میں موجود بھارتی کاسہ لیس عناصر کا ہاتھ تھا تو واقفان حال کے مطابق دوسری جانب مغربی پاکستان میں موجود وہ سیاسی برسر اقتدار عناصر بھی کافی حد تک ذمہ وار تھے کہ جو مشرقی پاکستان کو اس کے حصہ بقدر جثہ کے مطابق اس کا حق پہنچانے میں روڑے اٹکاتے تھے اور بنگالیوں کو نیچا دکھاتے تھے ‘جس کی وجہ سے ہمارے بنگالی بھائیوں کے دلوں میں مرکزی حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہونے لگی ‘جس کو پھر بھارتی پالیسی ساز اداروں نے استعمال کیا اور پاکستان کو زک پہنچائی ۔