چین کے بارے میں تو ہم بچپن سے بہت کچھ سنتے اور پڑھتے چلے آئے تھے‘ پر جب ہم نے اپنے دورہ چین کے دورا ن وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تو بہت لطف اندوز دوزہوئے ہزاروں سال پرانی تہذیب‘ دیوار چین قبلائی خان‘ انقلاب چین کے بارے میں زیادہ سے معلومات حاصل کرنا ایک خوشگوار عمل ہے ہمیں بیجنگ اور شنگھائی جانے کا بھی اتفاق ہوا ہے۔ پی آئی اے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسلام آباد بیجنگ روٹ پر سب سے پہلے اسے اجازت ملی کہ وہ اپنی پروازیں چلائے‘ یہ فلائٹ دنیا کے سب سے بڑے صحرائے گوبی پر پرواز کرتے ہوئے بیجنگ کے ہوائی مستقر پر چھ گھنٹوں کے بعد اترتی ہے‘ چین میں رہ کر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ کوئی دوسرا ملک ہے‘ عام چینیوں کی پاکستانیوں سے محبت کامظاہرہ ہر جگہ ہر موڑ پر نظر آ تا ہے جو چیزیں چین کی سیاحت کرنے والوں کو متاثر کرتی ہیں وہ جین کے باشندوں کا عام زندگی میں نظم و نسق کا مظاہرہ وقت کی پابندی کم گوئی‘صبر‘ محنت اور اپنی زبان سے محبت‘نئی چینی نسل میں کچھ لوگ امریکن نواز ہیں اور وہ امریکن لباس اور fast food کے رسیا ہیں لیکن۔ وہ دبی زبان میں اقرار بھی کرتے ہیں کہ آج چین جو کچھ بھی ہے یا جس مقام پر کھڑاہے وہ محض اس وجہ سے ہے کہ اسے 1950 ء سے لے کر 1990 تک ماؤزے تنگ‘ چو این لائی یا ان کے تربیت یافتہ حکمران ملے ہیں کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ پسماندہ ممالک میں ڈکٹیٹر تو کجا عوامی جمہوریت کے علم بردار حکمرانوں کی بھی یہ کوشش رہی ہے کہ ان کے بعد ان کی اولاد یا خاندان میں سے ہی کوئی فرد ان کے ملک کی باگ ڈور سنبھالے‘ماؤزے تنگ اور امام خمینی جیسے لیڈر کہ جن کی ہر بات پر ان کی قوم لبیک کہا کرتی تھی‘ اگر چاہتے تو اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی اپنا جانشین مقرر کرکے اپنے ملک میں موروثی نظام قائم کر سکتے تھے‘ انسان غلطیوں کا پتلا ہے ماؤزے تنگ اور چو این لائی نے بھی ہو سکتا ہے غلطیاں کی ہوں لیکن ترازو کا وہ پلڑا جس میں اگر ان کی غلطیاں ڈالی جائیں تو اس کا وزن نسبتاً اس پلڑے سے کم ہو گا کہ جس میں ان کی اچھائیوں کو ڈالا جائے گا‘ پاکستان کے عوام اگر ان دو عظیم چینی لیڈروں کے گن گاتے ہیں تو محض اس وجہ سے کہ وہ غریب پرور تھے اور معاشی مساوات پر یقین رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے ملک میں اشرافیہ کے اللوں تللوں والے کلچر کو پروان چڑھنے نہ دیا اور عام آدمی کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا اہتمام کیا۔ شنگھائی شہر کا پرانا علاقہ دیکھ کر پشاور شہر میں سیٹھیوں کے گھر اور حویلیوں کی یاد آ تی ہے ماضی بعید میں جونکہ سیٹھی خاندان کے تاجروں کے چین کے ساتھ تجارتی روابط تھے اور ان کاوہاں آنا جانا تھا لٰہذا انہوں نے اپنے گھر بھی اسی طرز کے بنائے کہ جو شنگھائی شہر میں تھے‘چینی عوام نہایت ٹھنڈے مزاج والے ہیں وہ جلد باز بالکل نہیں ہیں‘ ہزاروں سال پر محیط تہذیب نے انہیں ایک منفرد قوم بنا دیا ہے آج کا چین معاشی ترقی کی منزلیں طے کرکے ایک مضبوط سپر پاور بن چکا ہے‘ اہل مغرب اس کی ترقی پر انگشت بدندان ہیں‘امریکہ اسے سوویت یونین کی طرح تاراج کرنا چاہتا ہے‘پر قدرت نے اسے ایسی قیادت سے نوازا ہے جو دور اندیشی‘ سیاسی فہم اور حوصلے سے مالا مال ہے‘قدرت نے چین کو ایسی قیادت سے نوازا ہے کہ جسنے 20 سال کے عرصے میں اپنے 20 کروڑ ہم وطنوں کو کہ جو غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے تھے اپنی غریب پرور معاشی پالیسیوں کے توسط سے غربت کی لکیر سے باہر نکالا۔اور وہ آج خوشحال اور معاشی طور پر مطمئن زندگی گزار رہے ہیں‘اگر اس سلسلے میں پاکستان چین جیسی پالیسیوں کو اپنے ہاں نافذ کرے تو پاکستان بھی مسائل کے بھنور سے نکل کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے اور عوام کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے باہر آسکتی ہے۔