پاکستان میں یونیورسٹی کے تصور کو طویل عرصے سے غلط سمجھا جاتا رہا ہے اور غلط طریقے سے لاگو کیا جاتا رہا ہے، جو ایک ایسے ماڈل تک محدود ہو گیا ہے جو معیار پر توسیع اور مقدار کو ترجیح دیتا ہے۔ ملک بھر میں، یونیورسٹی کی قیادت زیادہ تعلیمی شعبوں، طالب علموں کی بڑی تعداد اور بنیادی ڈھانچے کے ساتھ کامیابی کا موازنہ کرتی ہے۔ اس توسیع کے باوجود، سرکاری شعبے کی یونیورسٹیاں مستقل مالی بحران میں پھنسی ہوئی ہیں اور اپنے بنیادی آپریشنل اخراجات کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف معاشی نااہلی کی عکاسی کرتی ہے بلکہ یونیورسٹی کے مقصد اور کردار کے بارے میں وسیع تر غلط فہمی کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ اضافہ فکری ترقی، تحقیق کی عمدگی اور معاشرتی ترقی میں تبدیل ہوتا ہے؟ یونیورسٹیاں ڈگریاں بنانے والی صنعتیں بن چکی ہیں، جہاں ایسے گریجویٹس تیار ہو رہے ہیں جو تنقیدی طور پر سوچنے، جدت یا معاشرے میں بامعنی کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اس مسئلے کا مرکزی نکتہ وسائل کی واضح طور پر غلط تقسیم ہے۔ سرکاری شعبے کی یونیورسٹیاں اپنے محدود بجٹ کے ساتھ فیکلٹی کی ترقی اور دانشورانہ افزودگی پر بنیادی ڈھانچے کو ترجیح دیتی ہیں۔ انہیں مناسب طور پر پروفیسر کے بغیر یونیورسٹیاں کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی فنڈنگ کا بڑا حصہ تعلیمی کارکردگی کو چلانے کے لئے درکار انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے جسمانی ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں خرچ ہوتا ہے۔ فیکلٹی ممبران، جو کسی بھی یونیورسٹی کی بنیاد ہونے چاہئیں، اکثر کم مالی اعانت، کم تربیت یافتہ اور فیصلہ سازی کے عمل میں نظر انداز کئے جاتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں فیکلٹی اور معاون عملے کے درمیان عدم توازن پایا جاتا ہے۔ ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں غیر تعلیمی اور تعلیمی عملے کا تناسب خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ جو دانشورانہ پیداوار میں بہت کم حصہ ڈالتے ہوئے اخراجات میں اضافے کا باعث ہیں۔ ایک متحرک تعلیمی کلچر کو پروان چڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے، یونیورسٹیاں حد سے زیادہ انتظامی اخراجات میں پھنسی (الجھی) دکھائی دیتی ہیں۔پاکستان میں موجودہ یونیورسٹی ماڈل بنیادی طور پر بامعنی تعلیم فراہم کرنے کے بجائے ڈگریوں کی تقسیم کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں پھلنے پھولنے کے لئے ضروری تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیتوں یا مسائل کو حل کرنے کی مہارت کے بغیر طلبہ کو ڈگریاں تھما دی جاتی ہیں۔ یونیورسٹیوں کے لئے عالمی معیار اسٹینفورڈ جیسے ادارے ہیں، جہاں جدت‘ دانشورانہ سختی اور معاشرتی اثر کامیابی کے کلیدی محرکات (میٹرکس) ہیں۔ اس کے بالکل برعکس پاکستانی یونیورسٹیوں میں ’سوچ کے عنصر‘ کا فقدان ہے جو عظیم تعلیمی اداروں کو ممتاز کرتا ہے۔ فکری جمود کا یہ کلچر وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ فیکلٹی شاذ و نادر ہی تنقیدی سوچ یا جدید تحقیق میں مشغول ہوتی ہے اور طلبہ کو شاذ و نادر ہی سوال کرنے، جوابات تلاش کرنے یا جدت سے کام لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ سوچنے کے کلچر کی یہ کمی یونیورسٹیوں کے اندر اور بڑے پیمانے پر معاشرے میں ترقی کو روکتی ہے۔ کوئی قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے جب اس کے تعلیمی مراکز تنقیدی سوچ سے عاری ہوں؟مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور تیزی سے تکنیکی ترقی کے دور میں عالمی سطح پر یونیورسٹیوں کی مطابقت پہلے ہی جانچ پڑتال کے تحت ہے جیسے جیسے کام کی نوعیت ترقی کر رہی ہے، روایتی ڈگری پروگرام کم متعلقہ ہوتے جارہے ہیں، آجر تعلیمی اسناد پر مہارتوں، تخلیقی صلاحیتوں اور مطابقت پذیری کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستانی یونیورسٹیوں کو اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر انہوں نے خود کو حالات کے مطابق نہ ڈھالا تو وہ مزید متروک ہو جائیں گی۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر ناصر اقبال۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
عالمی نظام میں متعلقہ رہنے کے لئے پاکستان کی جامعات کو عالمی تبدیلی قبول کرنا ہوگی اور اپنے نصاب، تدریسی طریقوں اور ادارہ جاتی مقاصد کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اس کے لئے جامعات کے کام کاج پر بنیادی نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ ایک یونیورسٹی کیا ہے‘ کیا ہونی چاہئے اور اس کے قیام کا مقصد کیا ہوتا ہے؟بنیادی طور پر‘ یونیورسٹی کو علم کی تخلیق، تنقیدی سوچ اور جدت کا مرکز ہونا چاہئے۔ اس سے ایک ایسے ماحول کو فروغ ملنا چاہئے جہاں طلبہ اور اساتذہ کو مفروضات پر سوال اٹھانے، نئے خیالات کی تلاش اور معاشرے میں بامعنی کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے یونیورسٹی ماڈل کو مکمل تبدیلی سے گزرنا ہوگا۔ یونیورسٹیوں کو فکری سرگرمیوں کو ترجیح دینی چاہئے۔ پاکستان میں یونیورسٹیوں کی تبدیلی کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں موجودہ یونیورسٹی ماڈل غیر مستحکم اور غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ یہ طلبہ کو جدید دنیا کے چیلنجوں کے لئے تیار کرنے میں ناکام ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے جامعات کو سوچ، تخلیقی صلاحیتوں اور جدت کے مراکز کے طور پر از سر نو تصور اور مرتب کرنا ہوگا جس کے لئے بنیادی ڈھانچے اور بیوروکریسی سے فیکلٹی اور دانشورانہ سرگرمیوں کی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔