پشاور ریڈیو سٹیشن کی اپنی ایک تاریخی حقیقت ہے یہ بر صغیر میں قائم ہونے والے قدیم ترین ریڈیو سٹیشنوں میں شامل ہے اس تاریخی ورثے کی حفاظت نہیں کی گئی سب سے بڑا ظلم تواسکے ساتھ یہ ہوا کہ جس کمرے میں اس کا ٹرانسمیٹر رکھ کر 1930ء کی دہائی میں اس کا آ غاز کیا گیا تھااسے محفوظ کرنا ضروری تھا وہ پشاور سیکریٹریٹ کی پرانی عمارت میں واقع تھا‘جسے نئی عمارت بناتے وقت گرا دیا گیا بعد میں ایک لمبے عرصے تک پشاور ریڈیو سٹیشن آج کے سیرینا ہوٹل کے سامنے ایک عمارت میں کام کرتا تھا پر اس کو وہاں سے بھی شفٹ کر دیا گیا‘ ریڈیو کے سامعین کی ریڈیو پاکستان پشاور کے ساتھ بڑی حسین یادیں جڑی ہوی ہیں دور حاضر میں تو اس کی اہمیت میں ویسے بھی بہت اضافہ ہو گیا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس طرح بی بی سی ریڈیو کو دور دراز تک اس کی نشریات سننے کے قابل بنانے کے واسطے طاقتور ٹرانسمیٹر ز لگا دئیے گئے ہیں ریڈیو پاکستان پشاور کو بھی اسی قسم کے ٹیکنکل سانچے میں ڈھالا جاتا
اور اس سے پشتو‘ دری‘ فارسی‘ چینی‘ روسی زبانوں کے بشمول وسطی ایشیا کے ممالک میں بولی جانے والی زبانوں میں مختلف نوعیت کے پروگرام براڈکاسٹ کئے جاتے پر اس طرف تو کسی نے سوچا تک نہیں اس طریقہ کار سے پاکستان ایران افغانستان روس چین اور وسطی ایشیا کے ممالک کو قریب سے قریب تر لایا جا سکتا ہے یہ کوئی دور کی بات نہیں جب ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت کے سبزہ زار میں ہر سال موسم بہار یعنی مارچ میں جشن بہاراں کے نام سے تین راتوں پر محیط موسیقی کی محافل سجتی تھیں ایک شب صرف
کلاسیکل موسیقی کیلئے مختص ہوتی ایک لائٹ کلاسیکل اور ایک فوک موسیقی کے واسطے ملک بھر کے معروف سنگرز ان میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے یہ محافل جو شام ڈھلتے ہی شروع ہو جاتیں رات گئے تک جاری رہتیں موسیقی کے یہ پروگرام چونکہ لائیو ہوتے یہ نشریات ریڈیو پاکستان کے تمام ریڈیو سٹیشنوں سے نشر ہوتیں‘ ہم نے ملک کے تمام سنگرز کو ان میں حصہ لیتے سنا ہے مثلاً استاد امانت علی‘ فتح علی‘ استاد نزاکت علی‘ سلامت علی‘ اقبال بانو‘ فریدہ خانم‘ فردوسی بیگم‘ روشن آراء بیگم‘ مہدی حسن‘ شوکت علی‘ غلام علی وغیرہ اسی طرح ریڈیو پاکستان پشاور نئے ابھرتے سنگرز کے درمیان مقابلے کیلئے بھی محافل منعقد کرایا کرتا اور جو سنگر پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کرتے ان کو انعام سے بھی نوازا جاتا لگ بھگ اسی دور میں گھنٹہ گھر پشاور کے آ س پاس بالاخانوں میں غلام
رسول اور جاوید اختر نامی سنگرز کا مسکن تھا جو غلام رسول اور جاوید اختر قوالوں کے نام سے مشہور تھے اس دور میں یہ دونوں سنگرزپشاور شہر میں ہونے والی ہر بارات کی تقریب میں گانے بجانے کیلئے بلائے جاتے اسی دور میں نجف علی سنگر بھی موجود تھے اور یہ تینوں سنگر ریڈیو پاکستان پشاور کے مستقل سنگرز کے پینل میں بھی شامل تھے ریڈیو پاکستان پشاور ان دنوں باقاعدگی سے ریڈیو ڈرامے ہر ہفتے براڈکاسٹ کرتا‘جن میں عبدالودود منظر‘ نیلسن کیمفر‘ خلیل خان‘ شیخ شریف اور باسط سلیم بطور ریڈیو آرٹسٹ حصہ لیتے۔ اسی طرح قہوہ خانے کے نام سے ہندکو زبان میں بھی براڈکاسٹ ہونے والا ہفتہ وار پروگرام کافی مقبول تھا‘ اسی طرح ایک پشتو پروگرام میں پائندہ خان اور ضابطہ خان اپنی بات چیت میں ریڈیو کابل سے پاکستان کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈہ کے بخیے ادھیڑتے ریڈیو پاکستان پشاور کے اس سنہرے دور میں اردو زبان میں مشاہرے میں پیش کئے جاتے تھے۔