جیسا کہ جدید دنیا ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہے جس پر خالصتاً ٹیکنالوجی‘ ڈیجیٹلائزیشن اور جدت کا غلبہ ہے‘ پاکستان خود کو تنہا محسوس کر رہا ہے۔ امریکہ میں جے ڈی وینس نائب صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے پیشرو ڈی ڈی آئزن ہاور نے 1952ء میں نوجوان اور متحرک رچرڈ نکسن کو نائب صدر کے طور پر وائٹ ہاؤس کے فیصلہ سازوں میں شامل کیا تھا جس سے بالآخر 1960ء میں امریکہ کے ترقی پسند اور اختراعی دور کا آغاز ہوا۔ وائٹ ہاؤس میں موجودہ تقرریاں بیبی بومر کی بالادستی والی قیادت سے دوری کی علامت ہے‘ یہاں تک کہ ڈیموکریٹک پارٹی بھی 2028ء کے انتخابات میں نوجوان امیدواروں کو لائے گی تاہم پاکستان اب بھی بے بی بومر سنڈروم میں پھنسا ہوا ہے‘ جس کی قیادت 1985ء سے ہو رہی ہے۔ تقریباً چار دہائیوں سے پاکستان تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں سے الگ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایک نئے‘ متحرک اور متنوع نقطہ نظر کا استعمال کیا جائے جس میں جدید تعلیم اور ترقی پسند ذہنیت کے حامل نوجوان رہنماؤں کو شامل کیا جائے۔ پاکستان کی معاشی جدوجہد کو اچھی طرح سے دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ اس کا حل روایتی علاج میں نہیں بلکہ جرات مندانہ اور اختراعی عمل میں مضمر ہے۔ عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کا شعبہ اکیسویں صدی کی سب سے زیادہ تبدیلی لانے والی قوت کے طور پر ابھرا ہے۔ بھارت میں ایک سو سے زیادہ یونیکارن‘ اسٹارٹ اپس ہیں جن کی مالیت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے‘ جو اسے جدت کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھرا ہے جبکہ پاکستان میں آئی ٹی کا نمایاں ٹیلنٹ موجود ہے لیکن اس کی صلاحیتوں سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ عالمی معیار کے انجینئرز اور پروگرامرز تیار کرنے کے باوجود پاکستان کی آئی ٹی برآمدات سالانہ 2.6 ارب ڈالر ہیں جو اس کے ٹیلنٹ پول سے بہت کم ہیں۔ڈیجیٹل ٹیکس اصلاحات‘ ٹیکنالوجی اور برآمدی تنوع پر توجہ مرکوز کرنے والا متوازن نقطہ نظر پائیدار حل فراہم کرسکتا ہے۔ ٹیکس اصلاحات اب بھی ایک اہم ترجیح ہے۔ غیر رسمی معیشت جی ڈی پی کے 35فیصد سے زیادہ پر مشتمل ہے‘ پاکستان کی ٹیکس بیس کم اور غیر مؤثر ثابت ہو رہی ہے۔ ٹیکس وصولی کو ڈیجیٹائز کرنا‘ ٹیکس بیس کو وسیع کرنا‘ اور دائمی ٹیکس چوری اور سرکاری وسائل کو بدعنوانی سے بچا کر ریاست کے محصولات میں نمایاں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کا توانائی کا شعبہ معیشت کیلئے اہم ثابت ہو سکتا ہے‘ جو فی الوقت نااہلیوں اور چوری کی وجہ سے سالانہ اربوں روپے کا نقصان برداشت کر رہا ہے۔ اِسی طرح قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری سے زیادہ پیداواری منصوبوں کیلئے مالی گنجائش پیدا ہو گی۔ پاکستان کیلئے سب سے اہم مواقع ڈیجیٹل معیشت میں موجود ہیں۔ عالمی سطح پر آئی ٹی کا شعبہ پھل پھول رہا ہے اور پاکستان بڑے کھلاڑی کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ملک پہلے ہی فری لانس خدمات کیلئے دنیا کے سرفہرست پانچ ممالک میں شامل ہے‘ جس میں نوجوان کاروباری افراد اپ ورک اور فائیور جیسے پلیٹ فارمز سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تاہم یہ کوششیں منقسم ہیں اور ان میں اضافے کیلئے درکار حکومتی حمایت کا فقدان ہے۔ دبئی کی کامیابی کی طرز پر ٹیک مراکز کا قیام پاکستان کو ٹیکنالوجی اور جدت میں علاقائی رہنما بنا سکتا ہے۔ تکنیکی جدت صرف ایک انتخاب نہیں بلکہ وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ ٹیک ہب کے طور پر دبئی کا عروج پاکستان کیلئے عملی مثال ہے‘ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دبئی نے اسٹارٹ اپ دوست نظام بنانے‘ عالمی باصلاحیت افراد کو راغب کرنے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) تیار کرکے اس ماڈل کو دہرا سکتا ہے۔ یہ زونز ٹیکس مراعات‘ آسان ضوابط اور وینچر کیپٹل تک رسائی کی پیش کش کرتے ہیں‘ جس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوسکتا ہے جہاں اسٹارٹ اپس پھل پھول سکیں۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعاون اس عمل کو مزید تیز کرسکتا ہے اور اِس سے ایک علاقائی ٹیک کوریڈور قائم کرسکتا ہے۔ زراعت اور ٹیکسٹائل جیسی روایتی صنعتوں پر پاکستان کے انحصار نے اس کی ترقی کی صلاحیت کو محدود کررکھا ہے اگرچہ یہ شعبے اہم ہیں لیکن وہ عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کیلئے درکار معاشی توسیع کو آگے نہیں بڑھا سکتے ہیں۔ ٹیکسٹائل سے آگے بڑھ کر‘ جو برآمدات کا ساٹھ فیصد سے زیادہ ہیں‘ پاکستان کو آئی ٹی سروسز‘ انجینئرنگ اور فارماسیوٹیکل جیسے شعبوں پر توجہ دینی چاہئے۔ ائرلفٹ اور بائیکیا جیسے اسٹارٹ اپس پہلے ہی مقامی مارکیٹ کی صلاحیت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ تاہم انہیں اہم چیلنجوں کا سامنا ہے‘ جن میں وینچر کیپٹل تک محدود رسائی اور ناکافی بنیادی ڈھانچہ شامل ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے سے ایک پھلتے پھولتے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کی راہ ہموار ہوسکتی ہے اور پاکستان جدت اور انٹرپرینیورشپ کا مرکز بن سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر صفغان سرور خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)