پشاور چھاؤنی میں فورٹ روڈ پر فرنگیوں نے اپنے دور اقتدار میں اسی طرز کا ایک کرکٹ گراؤنڈ بنایا تھا کہ جو انگلستان کے ہر شہر میں موجود ہے‘ اس کا نام تھا سروسز کرکٹ گراؤنڈ‘ بالکل انگلش ڈیزائن کا پیولین بھی اس کی ایک طرف تھا اور اس گراؤنڈ میں قیام پاکستان کے بعد کئی بیرونی کرکٹ ٹیموں نے میچ بھی کھیلے تھے‘ جن میں بھارت‘نیوزی لینڈ اور خود انگلستان کی ٹیم بھی شامل تھی‘ اس زمانے میں پانچ روزہ ٹیسٹ میچ کھیلے جاتے‘کم دورانیہ کے میچوں کا چلن ابھی عام نہیں ہوا تھاکسی زمانے میں گھر دوڑ کے شائقین کی تفریح طبع کے واسطے ریس کورس گارڈن میں ہر ہفتے اور اتوار کے دن پالتو گھوڑوں کی دوڑ ہوا کرتی‘ جس میں ایک خلق خدا حصہ لیتی‘پالتو گھوڑوں کے مالک اپنے گھوڑوں کو ریس میں دوڑاتے اور گھڑ دور کے شوقین حضرات ان پر شرطیں لگاتے کہ یہ دوڑ کون جیتے گا۔یہ سب باتیں اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ چوک یادگار اپنی جگہ پر موجود تو ہے پر ایک عرصہ دراز سے اب عشاء کی نماز کے بعد اس کے چبوترے کے نیچے کھڑے ہو کر سیاستدان جلسے نہیں کرتے‘کیا وہ اچھے دن تھے جب رات کو چوک یادگار جلسہ گاہ میں تبدیل ہو جاتا‘ نہ خلقت خدا کے معمولات زندگی متاثر ہوتے نہ ٹریفک جام ہوتا اور نہ ٹریفک کے رش کی وجہ سے مریضوں اور بیمار افراد کو بر وقت ہسپتال پہنچنے میں کوئی رکاوٹ ہوتی۔ جانے یہ چھوٹی سی بات ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین کی سمجھ میں کیوں نہیں آ تی اور وہ آپس میں مل جل کر شہر میں جلسوں کا انعقاد ماضی کی طرح صرف چوک یادگار یا چوک فوارہ تک محدود کیوں نہیں کرتے‘ پشاور شہر کے وسط میں واقع ہشتنگری کے تھانے کے قریب روڈویز ہاؤس کی عمارت اب کسی اور مقصد کے واسطے زیر استعمال ہے۔
سال 2000 ء تک اس عمارت سے چوبیس گھنٹے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی بسیں نہ صرف خیبر پختونخوا کے ہر شہر بلکہ لاہور تک اور پشاور یونیورسٹی تک سواریوں کو لے جاتیں‘وقت کی پابندی ان کا معمول تھا اور ان میں سفر محفوظ تھا‘ان بسوں کی مرمت اور ان کو مکینکلی فٹ mechanically fit رکھنے کے واسطے جی ٹی روڈ پر ایک بڑی ورکشاپ بھی موجود تھی۔ اب نہ روڈویز ہاؤس موجود ہے اور نہ وہ ورکشاپ۔