کھیتی باڑی سے گریز

1990ء کی دہائی میں سوشل اسٹڈیز کی کتابوں میں زراعت کو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ پاکستان کے چھوٹے کسان اپنے پسینے اور محنت سے اس ریڑھ کی ہڈی کو تھامے ہوئے ہیں۔ آئی ایف اے ڈی کے مطابق، جن کسانوں کے پاس ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم زمین ہے، وہ ملک کے تقریباً نوے فیصد ہیں۔ اس قدر بڑے زرعی گروہوں کو دو پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ معاشرے کے پیداواری ارکان کے طور پر جو قوم کا پیٹ بھر رہے ہیں اور دوسرا پاکستان کے شہری کے طور پر جن کے مفادات، معاش اور فلاح و بہبود ریاست کی ترجیح ہونی چاہئے۔ خالصتاً اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کسانوں کی کارکردگی کو بڑھانے اور وسائل کے استعمال کو بہتر بنانے کے لئے چھوٹے فارموں کو بڑے فارموں سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر میں، پاکستان کے سبز انقلاب نے ٹیوب ویل آبپاشی اور کیمیائی کھادوں کے ساتھ ساتھ مختلف فصلوں کی اعلیٰ پیداوار والی اقسام (ایچ وائی وی) متعارف کروائیں اگرچہ اِس زرعی انقلاب کو ابتدائی طور پر کامیاب قرار دیا گیا اور زرعی پیداوار میں اضافہ بھی ہوا لیکن اس کی وجہ سے عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوا اور درمیانے درجے کے کسانوں کی تعداد کم ہوئی۔ زرعی انقلاب کے ذریعے عدم مساوات کو فروغ نہیں ملنا چاہئے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے زرعی ڈھانچے نے، زمین کی ملکیت کی غیر مساوی تقسیم اور وسیع پیمانے پر کرایہ داری کے نظام کے باعث عدم مساوات پیدا کی ہے۔زرعی انقلاب میں حصہ لینے کے لئے، کسانوں کو بیج کی اقسام، کھادوں اور ٹیوب ویلوں کے قیام کی لاگت برداشت کرنے کے لئے وسائل کی ضرورت ماضی کی طرح آج بھی ہے۔ چھوٹا کسان زرعی تجارتی کمپنی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں اور اس کی معاش کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ اُسے  غربت کا بھی سامنا ہے۔ مزید برآں، ہم اپنے قیمتی آبی وسائل کو مکمل طور پر خشک ہوتے دیکھ رہے ہیں اور یہ صورتحال ایک ایسے خطے کے طور پر جو پہلے ہی آب و ہوا کے خطرے سے دوچار ہے، کے لئے تباہی، بھوک اور تباہی کا سبب بنے گا۔ تجارتی پیمانے پر کاشتکاری کی حمایت کرنے والی پالیسیاں اکثر دور اندیشی وژن کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان میں کل اٹھائیس لاکھ کسان کنبے ہیں۔ یہ خاندان صرف معاشی اکائیاں نہیں بلکہ ایسے لوگ ہیں جن کی بقا اُن کے ذریعہ معاش پر منحصر ہے۔ ہمیں یہ سوال کرنا ہوگا کہ ہم کس کی ترقی اور پیشرفت کو ترجیح دے رہے ہیں اور کیا اس سے آبادی کے پہلے سے کمزور طبقوں کو نقصان پہنچے گا؟ ہمیں عوام اور کرہ ارض کو اپنی ریاستی قیادت والی پالیسیوں اور پروگراموں میں منافع پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اس ناقص بیانیے کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے کہ کسان دوست پالیسیوں سے ترقی اور خوشحالی میں کمی آئے گی کیونکہ یہ واضح ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ ایسی پالیسیوں سے جو ریاست کی حمایت یافتہ بڑے پیمانے پر کارپوریٹ فارمنگ کو فائدہ پہنچاتی ہیں، امیر امیر ہوتے جائیں گے اور غریب غریب تر ہوتے جائیں گے اور ان کے درمیان فرق اتنا بڑا ہو جائے گا کہ اسے کبھی پر نہیں کیا جا سکے گا۔ حکومت کو اس طرح کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ چھوٹے کاشتکاروں کے مفادات کا تحفظ کر کے حکومت ملک میں غذائی تحفظ کی صورتحال کو یقینی اور بہتر بنا سکتی ہے اور بڑے پیمانے پر کاشتکاری کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے چھوٹے پیمانے پر کاشتکاروں کے لئے مراعات کا اعلان کر کے غربت میں کمی اور روزگار میں اضافے کی شرح کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔  (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہری نرین بٹ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)