ہو سبز پہاڑوں کا سفر، برف گری ہو اور شام ِ مری ہو

 دسمبر اپنا آدھا سفر طے کر چکا ہے یہ زمستان کے جوبن کے دن ہیں شام کو خنکی بڑھ جاتی ہے اور یار لوگ سر شام ہی گھروں کو لوٹ جاتے ہیں لیکن حرف و لفظ سے جڑے ہوئے دوست جلد چھا جانے والی شام میں مل بیٹھنے کے بہانے کار ادب کا دفتر کھول دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ لمبی راتوں میں لمبی کتھائیں چھیڑنے کا اپنا ہی ایک لطف ہو تا ہے، ہر چند آن لائن مشاعروں کا اور شام افسانہ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی جاری ہے جہاں واقعی یہ کرّہ عالمی گاؤں بن جاتا ہے وباء اور قرنطینہ (قید تنہائی) کے دنوں کی یہ سرگرمی آج بھی اسی طرح رواں دواں ہے تاہم بہت ادبی تنظیموں کی طرح حلقہ ارباب ذوق کی زمینی نشستیں بھی حسب معمول پوری اردو دنیا میں باقاعدگی سے منعقد ہو رہی ہیں، پشاور حلقہ کے جواں سال و جواں فکر سیکرٹری ڈاکٹر فضل کبیر اور طرحدار افسانہ نگار مسرور حسین کی دلچسپی سے حلقہ ارباب ذوق پشاور بھی موسموں سے بے نیاز ہر ہفتے باقاعدگی سے اپنا اجلاس جاری رکھے ہوئے ہے، تنقیدی نشستوں کے ساتھ ساتھ حلقہ کی ایک روایت اپنے مشاہیر کو یاد کرنا اور ان کے فن و شخصیت پر بات کر نابھی ہے چنانچہ گزشتہ شام شہر کے ایک ریستوران میں حلقہ کے دوستوں نے پشاور سے تعلق رکھنے والے اردو دنیا کے ایک معتبرو مستند شاعر اور دانشور سجاد بابر کی برسی کے موقع پر ایک بھر پور نشست کا اہتمام کیا۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ اس شام پشاور قلم قبیلہ کے وہ دوست بھی مو جود تھے جنہوں نے سجاد بابر کے ساتھ مل کر کار ادب کو آگے بڑھایا تھااور نئی نسل کے وہ احباب بھی شامل تھے جنہوں نے سجاد بابر کو دیکھا تو نہیں تھا مگر ان کے شعر کو بسر کر رہے تھے، حلقہ ارباب ذوق پشاور کی یہ روایت بھی رہی ہے کہ جہاں وہ ممتاز شعراء و ادباء کے ساتھ ادبی مکالمہ کا ڈول ڈالتا ہے اور ان کی کتب پر گفتگو کی نشستیں رکھتا ہے وہاں اپنے بچھڑنے والے مشاہیر کو بھی خراج عقیدت اور محبت پیش کرنے کے لئے ”بیاد ِ رفتگاں“ کے عنوان سے تقاریب کا اہتمام بھی کرتا ہے اور بے بدل شاعر سجاد باؔبر کی برسی کے موقع پر پشاور کے حلقہ کی یہ نشست اسی روایت ہی کی ایک کڑی تھی، یہ ایک بھرپور تقریب تھی جس کا آغاز تو قاری شاہد الاعظم الاظہری کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد حسب روایت عمدہ افسانہ نگار اور حلقہ کے جواں فکر جوائنٹ سیکرٹری مسرور حسین نے گزشتہ اجلاس کی روداد کے ساتھ کیا، فضل کبیر نے بہت عمدہ نظامت کی اور آغاز میں سجاد بابر کے شعر پر بہت اچھا تبصرہ بھی کیا‘ پروفیسر ڈاکٹراویسؔ قرنی نے اپنے بہت دلکش اسلوب میں سجاد بابر کو کمال خراج محبت پیش کیاکہ ایک سماں سا بندھ گیا تھا‘ ڈاکٹر صدف عنبرین کے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالہ کا موضوع ہی سجاد بابر کا شعر ہے‘ اس لئے انہوں نے بہت عمدہ ابتدائیہ پڑھا‘خالد سہیل ملک افسانہ کی دنیاکی ایک معتبر آواز ہے اور وہی اعتبار اس کے لکھے ہوئے خاکوں کو بھی حاصل ہے اور اس اکٹھ میں انہوں نے سجاد بابر کا کیا ہی عمدہ اور تخلیقی خاکہ پیش کیا کہ جس کے کئی فقروں پراحباب نے غزل کے مصرعوں کی طرح داد دی، ڈاکٹر نذیر تبسم نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے سے سجاد بابر کے مجموعہ کلام ’راہرو‘ کے حوالے سے اپنا بہت ہی نپا تلا اور متوازن تجزیہ پیش کیا، یوسف عزیز زاہد گزشتہ تین برس سے صاحب فراش ہیں اور بوجوہ کسی تقریب میں شرکت کی حامی نہیں بھرتے لیکن سجاد بابر سے محبت، قریبی قرابت داری اور حلقہ ارباب ذوق پشاور کے سیکرٹری ڈاکٹر فضل کبیر کے محبت بھرے اصرار کی وجہ سے انہوں نے شرکت پر آمادگی تو ظاہر کی تاہم صدارت سے معذرت کر لی کہ اگر شریک نہ ہو سکا تو قلق ہو گا، ان کی گفتگو میں سجاد بابر کی طبیعت اور رویہ میں جو زود رنجی کا عنصر شامل ہو گیا تھا اس کے سماجی اور نفسیاتی عوامل پر بہت عمدہ بات کی، مشتاق شباب نے سجاد بابر کو اصولوں کی پاسداری پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے والی شخصیت قرار دیا‘ جب کہ اقبال سکند رنے ان کے ساتھ گزاری ہو ئی شاموں کا ذکر چھیڑا،ڈاکٹر اسحق وردک نے سجاد بابرکی شخصیت کو شاعرانہ اور ساحرانہ کہتے ہوئے ان سے ملاقاتوں کی کتھا سنائی جب کہ عزیز اعجاز نے بھی سجاد بابر کے دل کو چھونے والے شعر اور ان کے خال و خد کو سحر انگیز قرار دیتے ہوئے انہیں ایک دلآویز شاعر کہا،حلقہ ارباب ذوق کی اس نشست میں نوواردان ادب کے انہماک،دلچسپی اور دلجمعی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ پشاور کے قلم قبیلہ کا آنے والا کل بھی گزشتہ کل کی طرح تابناک اور ثروت مند ہو گا، مجھے پاکستان ٹیلی ویژن پشاور کے بہت ہی متحرک جنرل منیجر ابراہیم کمال اور نجی چینل کے ٹو کے پشاور میں مدارالمہام ایک عمدہ منتظم اور مقبو ل ہوسٹ ذکی الرحمن کا بھی خصوصی شکریہ ادا کرنا ہے کہ میرے ایک صوتی پیغام پر انہوں نے پروگرام کی کوریج کے لئے اپنے سینئر پروڈیوسرز خالد حسین شاہ (پی ٹی وی)،غلام محی الدین اور حسنین ملک (کے ٹو) کی قیادت میں اپنی کیمرہ ٹیمیں بھیجیں، سجاد بابر کی بات ہو تو لا محالہ دوست مہربان میجر عامر ؔ کا ذکر بھی ہوتا ہے جنہوں نے سجاد بابر کی بیماری کے دنوں میں انہیں پشاور سے اسلام آباد بلا کر کئی مہینے تک ان کو مریض سے زیادہ اپنے بزرگ،ایک بے پناہ شاعر اورمہمان خصوصی کی حیثیت سے بحریہ کے انٹر نیشنل ہسپتال کے وی وی آئی پی روم میں چیک اپ اور مفت علاج کی سہولت فراہم کی میں نے پشاور کے گزشتہ کل کے ادبی منظرنامہ پر بات کرتے ہوئے پشاور کے ادبی افق کو خالی خالی چھوڑ کر چل دینے والی کئی دلدار شخصیات کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ سجاد بابر اشیاء کو جس طرح دیکھتے ہیں اور جس سہولت سے اشیاء ان پر اپنا آپ منکشف کرتی ہیں اس عطائے ایزدی کے لئے تخلیق کار ترستے ہیں، اور اس ہنر کو مانگتے مانگتے کمریں کوزہ ہو جاتی ہیں۔ سجاد بابر کی تخلیق قوت کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ جب وہ دبئی کے تپتے جھلستے صحراؤں میں اپنے فرائض منصبی کے دوران دھوپ کی شدت اور حدت سے نبرد آزما تھے،تو اپنے سر پر اپنے شعر کی چھتری تان لیا کرتے تھے، شیخ ایاز نے کہا ہے کہ
 ”حسرت موہانی جیل میں چکی پیستے تھے اور اس کے
 سادہ و رنگین پیراہن کو بھی یاد کرتے تھے چکی کی مشقت کو
 آسان بنانے کا کیا اچھا طریقہ ہے“
میں یہ تو نہیں کہتا، مگر ایسی ہی ایک جھلستی تپتی اور جلتی بلتی دوپہر کو جب سورج کی کرنیں انی، بنیں سینے کے آر پار ہو رہی تھیں تو سجاد بابر نے ان کے آگے اپنی اس غزل کا بند باندھ دیا تھا۔ 
 ہو سبز پہاڑوں کا سفر، برف گری ہو اور شام ِ مری ہو
 اک موڑ پہ چمکے کوئی گھر، برف گری ہو اور شام ِ مری ہو