ریلوے کی نشاۃ ثانیہ کب ہو گی؟ 

اگلے روز تیزگام کے ایک ڈبے میں آ گ لگنے کے واقعے سے ایک مرتبہ پھر یہ تلخ حقیقت ابھر کر  سامنے  آ ئی ہے  کہ پاکستان ریلوے کس قدر زبوں حالی کا شکار ہے‘شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو کہ جب پاکستان ریلوے کی ٹرینیں کسی نہ کسی  نوعیت کے حادثے کا شکار نہ ہوتی ہوں‘پاکستان ریلوے کی بربادی کی اور بھی کئی وجوہات ہوں گی‘پر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ روڈ ٹرانسپورٹ کے مالکان ایک دور میں ایوان اقتدار میں اس قدر طاقتور لابی کے مالک ہو گئے تھے کہ انہوں نے قصداً ارباب اقتدار سے ایسے ایسے  کام کروائے   کہ جن سے ریلوے کی بیخ کنی ہوتی رہی اور جس کا پھر مالی فائدہ ان کی  اپنی بسوں‘ ٹرکوں اور ویگنوں کو ہوا۔ایک دور تھا کہ جب صدر‘ وزیراعظم‘گورنر اور وزراء ملک کے اندر سفر بذریعہ ریلوے کرتے اور ان  کے لئے خصوصی کمپارٹمنٹ  ریل گاڑی کے ساتھ لگا دیا  جاتا تھا‘ جسے  سیلون کہا جاتا‘ اس عمل سے ریلوے کا عملہ ہر  وقت چوکس رہتا اور اس سے ریلوے کی کارکردگی کافی اچھی ہو گئی تھی کیونکہ وی وی آئی پیز کے ریلوے میں سفر سے ریلوے کا عملہ کافی مستعد اور متحرک رہا کرتا تھا  اب تو اس ملک میں ایک لمبے عرصے تک ریلوے کے ساتھ حکمرانوں نے سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا ہوا ہے‘ بد قسمتی سے اس کے اکثر وزراء نے اس میں سیاسی بنیادوں پر ضرورت سے زیادہ عملہ بھرتی کر دیا ہے جس سے اس کے ترقیاتی اخراجات سے غیر ترقیاتی اخراجات بڑھ گئے ہیں‘عملہ کی بھرتی  میں چونکہ  میرٹ کا فقدان تھا اس لئے اس کی مجموعی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہمیں ایک نہایت ہی متحرک اور مستعد  ریلوے کا نظام ورثے میں ملا تھا‘بجائے اس کو مزید بہتر کرنے کے ہم نے اس کی پٹڑیوں تک کو بیچ دیا‘ اب سی پیک کے توسط سے ایک نادر موقع ہمارے ہاتھ آ یا ہے جس کے تحت پشاور سے کراچی اور کوئٹہ تک نیا ریلوے ٹریک بچھایا جا سکتا ہے‘جنوبی وزیرستان کے دھانے تک سنگل ریلوے ٹریک موجود ہے اسے لمبا کر کے براستہ کوئٹہ تک ایک دوسرا  ٹریک بچھایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے ڈیرہ اسماعیل خان کو بھی منسلک کیا جا سکتا ہے اسی طرح راولپنڈی سے براستہ کوہاٹ بنوں‘ لکی مروت جو ریلوے لائن موجود ہے اسے بھی کشادہ کر کے ڈیرہ اسماعیل خان تک بڑھایا جا سکتا ہے‘ ایران افغانستان اور وسطی ایشیا کے کئی ممالک کے ساتھ ریلوے لنک قائم کرنے  سے وطن عزیز کی معشیت میں ایک خوشگوار انقلاب آ سکتا ہے‘کیا ہی اچھا ہو‘ اگر ہمارے اکابرین اور ارباب بست و کشاد ملک کے اندر ریلوے کے ذریعے سفر کرنے کے  کلچر کو فروغ دیں‘ان کی دیکھا دیکھی سرکاری ملازمین اور دیگر طبقوں کے لوگ بھی اس کلچر کو اپنا لیں گے اور اس طرح ریلوے کی سواری کی نشاۃ ثانیہ ہو جائے گی کہ جو غریب عوام کی سواری ہے۔وطن عزیز کے سیاسی حلقوں میں یہ غلط تاثر عام ہو رہا ہے کہ ٹرمپ کے آ نے کے بعد پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی رونما ہونے والی ہے‘ اس قسم کی سوچ کے حامل لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں‘ ایسی کوئی بات بھی نہیں ہونے والی‘ نیا امریکی صدر یہ دیکھے گا کہ اگر پاکستان میں کوئی سیاسی لیڈر اس  خطے میں امریکی پالیسی کے مطابق اس کی ڈگڈگی پر ناچتا ہے تو وہ اس کے ساتھ یک جان دو قالب ہو جائے گا اور اگر اس نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان اس کے اشارے پر ناچ کر چین اور روس کے خلاف مخاصمت کی پالیسی اختیار نہیں کرتا تو پھر وہ اس ملک کے ارباب اقتدار کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو اس نے ماضی میں کرنل ناصر اور سوئیکار نو‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ فیڈل کاسترو‘ قذافی‘پیٹرک لوممبا  وغیرہ کے ساتھ کیا تھا۔چینی صدر نے بالکل سچ کہا ہے کہ چینی قوم درست راستے پر قائم رہ کر جدت طرازی کی حامل قوم ہے‘یقینا اسی طریقے پر چل کر آج بغیر گولی چلائے چین دنیا کا مضبوط ترین ملک بن چکا ہے۔