جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو لپیٹ کے

 زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ تعلیمی اداروں میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی سارا سال جاری رہتی تھیں، کھیل، تفریح اور تقریری مقابلے سکول کی سطح پر بھی ہوتے تھے اور ساتھ ہی اپنی اپنی کلاس کے ٹیٹوریل گروپس بھی ہوتے تھے جن میں ادبی ا ور ثقافتی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں،بزم ادب یا اس سے ملتے جلتے نام سے طلبہ کی اپنی تنظیمیں بھی کار ِ ادب کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا کرتی تھیں، کالجز میں بھی ادبی اور ثقافتی گروپس اپنے پروفیسرز کی نگرانی میں شعر و ادب، مباحثے اور ڈرامے بھی کیا کرتے تھے جس وقت میں ساٹھ کی دہائی کے اواخرمیں نو شہرہ کالج میں تھا تو ہمارے پرنسپل موسیٰ کلیم مرحوم تھے جوکئی کتابوں کے مصنف اور ایک جانی پہچانی ادبی شخصیت تھی ، اس زمانے میں نوشہرہ کالج میں باذوق طلبہ کی بھی کمی نہ تھی اس لئے آئے دن کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ہوتی یہ تقریبات زیادہ تر کلاسسز کے اختتام پر ہوتیں لیکن انہیں دنوں ایک شاندار ” شام موسیقی“( میوزیکل کنسرٹ) کا اہتمام کیا گیا تھا جو ظاہرہے شام ڈھلے ہوئی تھی اور پہلی بار ہم نے گھر کے باہرپیرس ہوٹل نوشہرہ میں رات گزاری تھی کیونکہ رات گئے شو ختم ہوا اور تب شام کے بعدبسیں اور دیگر سواریاں دستیاب نہیں ہوا کرتی تھیں،نوشہرہ کالج میں میرے اردو کے پروفیسر معروف ریڈیو ،فلم اور ٹیلی ویژن کے بے بدل فنکار ودود منظر تھے۔ جنہوں نے نوشہرہ کالج کے سٹیج پر کئی ایک یاد گار ڈرامے پیش کئے تھے، ایک ڈرامہ ( ایک آنسو ہزار قہقہے) میں چھوٹا سا ایک کردار میرے حصہ میںبھی آ یا تھا۔بعد کے زمانوں میں میری خوش بختی کہ میں پروفیسر ودود منظرکا نہ صرف گورنمنٹ کالج پشاور میں رفیق ِ کار بھی رہا بلکہ میرے لکھے ہوئے ریڈیو اور ٹی وی کے کئی ایک ڈراموں اور سیریلز میں انہوں نے پر فارم بھی کیا، خیبر پختونخوا کے جتنے کالجز میں معروف شاعر ادیب تاریخ دان محقق و نقاد اور ایک جیدعالم شوکت واسطی بطور پرنسپل تعینات رہے وہاں کم از کم ایک بار ضرور کل پاکستان مشاعرہ کروایا ہے جن میں حفیظ جالندھری اور عبدالحمید عدم جیسے بڑے شعرا کو بھی مدعو کیا کرتے تھے، کرم ایجنسی کے پاڑہ چنار کالج میں بھی انہوں نے ایسا ہی شاندار مشاعرہ کرایا تھا جسے نصف صدی گزر جانے کے باوجو د ابھی تک لوگ یاد کرتے ہیں پروفیسر جمیل حسین کاظمی جو کرم ایجنسی کے حالیہ واقعات پر سب کی طرح بہت دل گرفتہ ہیں اور جو اپنی ملازمت کے آخری چند سال خود بھی پاڑہ چنار کالج کے پرنسپل رہے ہیں دو دن پہلے بھی ان سے
 بات ہو رہی تھی تو وہ یہی کہہ رہے تھے کہ کاش ادب ہماری روزمرہ کی ضروریات کا ایک اہم جزو ہو تا تو شاید اب صورت حال مختلف ہوتی ان کو بھی شوکت واسطی مرحوم کی پاڑہ چنار کالج میں ادبی سرگرمیاں یاد تھیں کیونکہ وہ ان دنوں اسی کالج کے طالب علم تھے انہیں بھی یہی قلق تھا کہ اب تعلیمی اداروں میں اس طرح کی تقریبات خیال وخواب ہوئیں ،میں نے انہیں بتایا کہ کچھ کچھ تعلیمی ادروں سے کبھی کبھی شعر و ادب کی بڑی نشستوں کی خبریں اب بھی مل جاتی ہیں، بعض اساتذہ اپنے حصے کی شع اب بھی جلانے کی کوشش کر رہے ہیں،وومن یونی مردان اور پشاور کی شہید بے نظیر وومن یونیورسٹی سے گاہے گاہے نثری اور شعری نشستوں کے انعقاد کی خبریں ملتی رہتی ہیں شہید بے نظیر وومن یونیورسٹی پشاور کے شعبہ اردو کی کچھ پروفیسرز کار ادب سے بھی جڑی ہوئی ہیں اور ان کی اچھی کتب بھی شائع ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیںاس لئے ان کی دلچسپی سے بھی ادبی تقریبات کا انعقاد ممکن ہو جا تا ہے پھر سال میں ایک بڑا مشاعرہ تو جیسے اب ان کی روایات میں شامل ہو تا جا رہا ہے، اسی طرح پشاور یونیوسٹی میں بھی پیوٹا کے زیر اہتمام سالانہ مشاعرہ تواتر کے ساتھ ہر سال منعقد ہو تا ہے، اسلامیہ کالج میں بھی اس وقت شعر و ادب سے وابستہ دوستوں کی ایک بڑی تعداد مو جود ہے با ذوق طلبہ و طالبات بھی ہیں تاہم ان کے ہاں بڑی ادبی تقریبات کم کم ہوتی ہیں، ایک زمانہ تھا جب عبدالعزیز نیازی مرحوم حیات تھے تو ان کے قرطبہ کالج یونیورسٹی میں عالیشان مشاعرے اور ادبی تقریبات ہوا کرتی تھیں احمد ندیم قاسمی کی سالگرہ کی ایک یادگار تقریب کی باز گشت تو تصاویر کی صورت میں اب بھی سوشل میڈیا پرسنائی دیتی ہے، تب عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب ،محقق و نقاداستاد خاطر غزنوی بھی قرطبہ میں تھے، ان کے بعد بھی ایک دو عالیشان مشاعرے ہوئے تاہم اب ایک مدت سے قرطبہ کے دوست ادب کی تقریبات کی حد تک منقار زیر پر ہیں، گندھارا میڈیکل یونیوسٹ
ی میں بھی ڈاکٹراسماعیل قمر کی دلچسپی سے یونیورسٹی کے اینول ڈے کی بہت سی تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ ایک بڑا مشاعرہ بھی ہوا کرتا تھا جس میںمقامی پشتو ہندکو اور اردو شعرا کے ساتھ ساتھ اسلام آباد،لاہور اور کراچی تک سے کوئی ایک معروف و مقبول شاعر بھی مدعو ہوتا،ایک بہت عمدہ سرگرمی، طلبہ کی طرف سے بنائی گئی مختصر دورانیہ کی ٹیلی فلموں اور ڈراموں کا مقابلہ ہے جس میںاداکاری،تدوین اور ہدایتکاری کا بہت اعلیٰ معیار نظر آتا ہے۔ یہ سب تو خیر اب بھی ہو تا ہے مگر جانے کیوں مشاعرہ دو ایک برس سے ان سرگرمیوں سے منہا کر دیا گیا ہے اگر چہ اب تو پریشان خٹک اور پور دل خان خٹک کے معتبر گھرانے کے اردو،پشتو اور انگریزی زبان کے معروف شاعر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اعجاز حسن خٹک گندھارا میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اس لئے توقعات اور بھی بڑھ گئی ہیں۔ اسی طرح معروف شاعرہ فرح اسد کے نجی کالج ہدف گروپ آف کالجز کے پشاور کیمپس میں بھی کبھی کبھی کسی بڑی ادبی تقریب کا ڈول جاتا رہا ہے مگر اب وہاں بھی ادبی محاذ پر خاموشی ہے ، پشاور کے گورنمنٹ گرلز باچا خان کالج بھانہ ماڑی اور سٹی گرلز کالج گل بہار میں کئی یادگار اور شاندار ادبی تقریبات اس وقت ہوئیں جب ان کالجز کی پرنسپل معروف ادبی شخصیت ڈاکٹر شاہین عمر تھیں اور ان دنوں وہ گورنمنٹ دگری گرلز کالج پبی کی پرنسپل ہیں اور جب سے انہوں نے اس کالج کا چارج سنبھالا ہے تو نہ صرف کالج کی تعلیمی اور انتظامی سرگرمیوںمیں بہتری کی صورت پیدا ہوئی ہے بلکہ کئی ایک یادگار ادبی تقریبات ،کتب کی رونمائی اور شعری نشستوں کا انعقاد بھی کروا چکی ہیں، اس سلسلہ کی تازہ کڑی قلم قافلہ پاکستان اور اسلام آباد کریسنٹ لائنز کلب کے باہمی اشتراک سے ،استقبال ِ سال ِ نو کا نیر سرحدی کی نظا مت اور ڈاکٹر نذیر تبسم کی صدارت میں دو دن پہلے ہونے والا عالیشان مشاعرہ تھا، جس میں اسلام آباد، نوشہرہ، پبی اور پشاور کے جانے پہچانے شعرا نے اپنے عمدہ کلام سے مشاعرہ کو یاد گار بنا دیا تھا اس دن موسم بھی مہربان تھا کچھ تو خنکی کم کم تھی اور کچھ گرلز کالج پبی کی باذوق طالبات کی داد نے بھی ماحول کو گرما دیا تھا مشاعرہ کے بعد کالج کے لانز میں کھلی دھوپ میں دوستوں کے ساتھ چند لمحے گزارنے کی گرمی توجیسے ہمارے ساتھ ہی چلی آئی شکیب جلالی یاد آ گئے۔
 جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو لپیٹ کے
 زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے