خیبر پختونخوا کے ایک دور افتادہ گاو¿ں میں ایک لڑکا‘ جس کی عمر بمشکل تین سال تھی، پولیو کا تازہ ترین شکار بنا ہے لیکن اِس کی افسوس ناک کہانی انوکھی نہیں۔ پاکستان میں پولیو ویکسین کی دستیابی کے باوجود بچوں کو مفلوج ہونے سے نہیں بچایا جا رہا اگر ثقافتی مزاحمت، سیکیورٹی چیلنجز اور غلط معلومات کا امتزاج نہ ہوتا جو ملک میں پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو متاثر کر رہی ہیں ا±ور جن کی وجہ سے والدین اپنی کمیونٹی میں پھیلنے والی افواہوں سے متاثر ہو کر ویکسین لگانے سے انکار کر رہے ہیں جن کا ماننا تھا کہ یہ ویکسین بانجھ پن کا سبب بن سکتی ہے یا کسی غیر ملکی سازش کا حصہ ہے۔ پولیو سے متاثر بچے پاکستان کو پولیو کے خاتمے سے روکے ہوئے ہیں۔ پاکستان ا±ور افغانستان دنیا کے آخری دو ممالک ہیں‘ جہاں پولیو کا پھیلاو¿ جاری ہے اگرچہ عالمی برادری نے پولیو کے خاتمے کے لئے نمایاں پیش رفت کی ہے لیکن پاکستان بہت پیچھے ہے۔ سال دوہزار اکیس میں پاکستان میں وائلڈ پولیو وائرس (ڈبلیو پی وی) کا صرف ایک کیس ریکارڈ ہوا، جس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ بدقسمتی سے یہ امید قلیل مدتی ثابت ہوئی کیونکہ اگلے سالوں میں کیسز میں ایک بار پھر اضافہ ہوا، جس میں 2022ءمیں شمالی وزیرستان میں بڑی وبا بھی شامل تھی، جس کے نتیجے میں بیس مصدقہ پولیو کیسز سامنے آئے تھے تاہم سال 2024ئ کے آخر تک متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ کر 68 ہو گئی تھی جو اس بات کا اشارہ ہے کہ پولیو کے خلاف جنگ تاحال ختم نہیں ہوئی ہے۔ اس سے پولیو کے خاتمے کی موجودہ حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لینے‘ حفظان صحت اور صفائی ستھرائی سے متعلق زیادہ مربوط نقطہ نظر اپنانے کی فوری ضرورت ہے۔پولیو بنیادی طور پر پھیپھڑوں اور منہ کے راستے سے متاثر کرتا ہے ا±ور اِسی ذرائع سے پھیلتا ہے۔ اس مسلسل منتقلی کے پیچھے عوامل کثیر الجہتی ہیں: ناقص صفائی ستھرائی، مضر صحت طریقوں، ویکسین کی مزاحمت، سیکورٹی خدشات اور ناکافی گورننس وغیرہ۔ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان جیسے علاقوں میں صورتحال خاص طور پر سنگین ہے، جہاں زیادہ کیسز کی تعداد صحت کے بنیادی ڈھانچے کے چیلنجز اور ویکسینیشن تک رسائی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ملک میں پولیو کی مسلسل موجودگی گہرے مسائل کی نشاندہی کر رہی ہے جو صحت کی مداخلت سے بڑھ کر ہیں، جن میں گورننس کی خامیاں، معاشرتی رکاوٹیں اور ناقص انفراسٹرکچر جیسے امور شامل ہیں۔ کئی دہائیوں کی ویکسینیشن مہمات کے باوجود، کامیابی حاصل نہ ہونے کی وجہ منقسم حکمت عملی اور اہم اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ناکافی عزم ہے۔ پولیو سے پاک مستقبل کے حصول کے لئے ان بنیادی عوامل پر توجہ دینا ضروری ہے۔سیکیورٹی خدشات پاکستان میں پولیو کے خلاف جنگ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ 2000ءکی دہائی کے اوائل سے اب تک 200 سے زائد پولیو ورکرز اور سیکیورٹی اہلکار حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں، خاص طور پر خیبر پختونخوا، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں یہ حملے نہ صرف صحت کے کارکنوں کو گھر گھر پہنچنے سے روکتے ہیں بلکہ مقامی طور پر خوف اور عدم اعتماد بھی پیدا کرتے ہیں، جس سے ویکسینیشن کی کوششوں میں مزید رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ تشدد کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ بہت سے علاقوں میں صحت کے کارکنوں کی جانب سے زیادہ خطرے والے علاقوں میں کام کرنے میں ہچکچاہٹ کی وجہ سے ویکسین نہیں لگائی جا سکی۔ پاکستان میں جاری پولیو چیلنج کی ایک اور اہم وجہ منقسم گورننس اور حکومتی اداروں کے درمیان کمزور ہم آہنگی ہے۔ پاکستان کے صحت کے نظام کی غیر مرکزی نوعیت کی وجہ سے پولیو کے خاتمے کی مہمات کو اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے لئے پولیو کے خاتمے کا راستہ ایک مربوط، کثیر الجہتی نقطہ نظر میں مضمر ہے جو بہتر صفائی ستھرائی، بہتر گورننس اور ٹارگٹیڈ کمیونٹی کی شمولیت کے ساتھ ویکسینیشن کی کوششوں کو یکجا کرتا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر ایم ایس عزیز۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولیو کے خاتمے کو صحت عامہ کے وسیع تر اقدامات سے جوڑا جانا چاہئے۔ دیہی علاقوں میں ہاتھ دھونے کو فروغ دینے اور بیت الخل? کی تعمیر ا±ور بڑے پیمانے پر حفاظتی ٹیکوں کی مہموں کو تقویت و اہمیت ملنی چاہئے۔ پاکستان سے پولیو کا خاتمہ صرف صحت عامہ کا معاملہ نہیں بلکہ یہ بچوں کے حقوق کا تحفظ ا±ور انصاف کی فراہمی کا معاملہ بھی ہے۔ وقت ہے کہ پاکستان فیصلہ کن اقدامات کرے اور پولیو کے پھیلاو¿ کو ختم کرے جو معصوم بچوں میں مستقل معذوری کا سبب بن رہا ہے۔