کسی بھی ملک میں ریاستی ڈھانچے کے تحفظ اور استحکام کی آخری ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ مہذب معاشروں میں عدلیہ، جو پاکستان میں عدلیہ، دیگر ممالک میں وزارتِ انصاف، پشتون روایتی جرگہ، اور پنجاب میں پنچایت کے نام سے جانی جاتی ہے، ریاستی اور معاشرتی معاملات پر نظر رکھتی ہے، انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے اور ظلم کو روکتی ہے۔ تاہم، پاکستان میں عدلیہ روزِ اوّل سے اپنے بنیادی فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہی ہے۔ عوام کا عدلیہ سے انصاف حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ عدلیہ پر عوامی عدم اعتماد ریاستی استحکام کے لیے خطرہ بن چکا ہے، اور اس کی تنزلی دراصل ریاستی نظام کی تنزلی کے مترادف ہے۔
ریاستی نظام اور اس کے ستون
پاکستان کا ریاستی نظام تین اہم ستونوں پر قائم ہے: انتظامیہ، مقننہ، اور عدلیہ۔
انتظامیہ: سول اور ملٹری بیوروکریسی پر مشتمل ہے، لیکن یہ عوامی اعتماد اور عزت کھو چکی ہے۔ عام لوگ ان اداروں کو عزت و احترام دینے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ان کے فیصلے ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی ہوتے ہیں۔
مقننہ: جو ریاست کا دوسرا اہم ستون ہے، مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور جمہوری نظام کو کمزور کرنے میں سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی قیادت کو کمزور کرنے کے لیے غیرسیاسی عناصر کو آگے بڑھایا، جس میں عدلیہ نے بھی کردار ادا کیا۔
عدلیہ: عدلیہ نے ریاست کے باقی اداروں کو کمزور کرنے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار کے طور پر کام کیا۔ افتخار چوہدری، ثاقب نثار، عمر عطا بندیال جیسے ججوں نے جمہوری اداروں کو کمزور کیا اور عدلیہ کو ایک سیاسی ہتھیار بنا دیا۔
عدلیہ کی بدعنوانی اور وکلاء کا کردار
عدلیہ میں شامل ججوں اور وکلاء کی اکثریت انصاف کی فراہمی کی بجائے ذاتی مفادات اور مالی فوائد کو ترجیح دیتی ہے۔ وکلاء مقدمات لڑنے کی بجائے لین دین اور کمیشن کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ عدلیہ میں رشوت عام ہو چکی ہے، اور بڑے عہدوں پر فائز جج فیصلے کرتے وقت انصاف کے اصولوں کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
ریاستی نظام کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات
اگر پاکستان کو بچانا ہے تو عدلیہ، مقننہ، اور انتظامیہ میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانا ہوگا۔ کرپشن اور بدعنوانی کو بے نقاب کر کے اس کے مرتکب افراد کو کڑی سزا دی جائے۔ ظلم اور ناانصافی پر مبنی ریاستی نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا، اور اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو ملک کو شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تفصیلا عرض ہے کہ کسی بھی ریاست یا ملک میں ریاستی نظام یا ریاستی ڈھانچے کے تحفظ کی آخری ذمہ داری اس ملک یا ریاست کی عدلیہ پر عائد ھوتی ھے ۔ مہذب معاشرے میں عدلیہ جو پاکستان کی طرح عدلیہ ۔ دیگر ممالک میں وزارت انصاف ۔ پشتون کے روایتی جرگہ اور پنجاب میں پنچائیت کے نام سے جانے اور پہچانے والے ادارے ریاستی اور معاشرتی معاملات پر کڑی نظر رکھتے ہیں ۔ مظلوموں کو انصاف فراھم کرتے ہیں اور ظالموں کو ظلم کرنے سے روکتے ھے۔مگر مملکت عزیز میں روز اول سے لیکر اب تک عدلیہ ان مقاصد کی حصول یا اس قسم کے فرائض سر انجام دینے میں مکمل طور پر ناکام ھوئی ھے ۔ اب حرف عام میں عدالتوں سے انصاف یا حق کی حصول ناممکن کیا مشکل دکھائی دیتا ھے ۔ عدلیہ پر عوامی عدم اعتماد کو نظر انداز کرنا درحقیقت خودکشی کی مترادف ھے اور عدلیہ لہ تنزلی درحقیقت اب ریاست ھی کی تنزلی سمجھ کر اس پر خاموش رھنا از خود اس جرم میں ملوث ہونے کے برابر ہیں۔ 90 کی دہائی کے دوران جب افغانستان میں طالبان برسر اقتدار تھے تو اس وقت ذرائع ابلاغ کے عالمی ادارے طالبان کے ہاتھوں ھونے والی کاروائیوں بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رھے تھے ۔ اس دوران طالبان نے مخالفین یعنی شمالی اتحاد کے حملوں سے بچنے کے لئے کابل کے شمال میں واقع ایک علاقے قرہ باغ میں انگور کے باغات کاٹ کر اور ان کو آگ لگا ختم کر دیے تھے ۔ اس روز سی این این ٹیلی ویژن سے منسلک عالمی شہرت یافتہ صحافی قصری ناجی پشاور میں موجود تھے اور انہوں نے اس واقعے پر راقم سے انٹرویو کیا۔ اس دوران راقم الحروف کے دفتر میں ایک افغان بزرگ موجود تھے جب انٹرویو ختم ھوا اور قصری ناجی چلے گئے تو افغان بزرگ جو سردار محمد داود خان کے دور میں سرندوال کے عہدے پر فائز تھے کہنے لگے کہ وہ میرے موقف سے اس لحاظ سے اتفاق نہیں کرتے کہ طالبان کے برسر اقتدار آنے سے قبل افغانستان میں افراتفری تھی کوئی نظام ریاست نہیں تھا طالبان کے آنے سے ایک نظام قائم ھوا ھے ۔ انکے بقول لاقانونیت سے سخت نظام بہت اچھا ھوتا ھے ۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کا ریاستی نظام مکمل طور پر لا قانونیت میں تبدیل ھو رھا ھے ۔ جس کے پاس طاقت ھے ۔ دولت ھے اختیارات ھے تو وہی سلطان ھے ۔ اسی طاقتور سلطان کے ہاتھوں ریاست کا نظام چل رھا ھے ۔ پاکستان کا ریاستی نظام تین اھم اداروں پر قائم ھے ان اداروں میں انتظامیہ ۔ مقننہ اور عدلیہ شامل ہیں ۔ انتظامیہ میں سول اور ملٹری بیوروکریسی شامل ھے اور ان دونوں اداروں نے عام لوگوں یا معاشرے میں اہمیت ، افادیت ، طاقت ، مقبولیت اور عزت مکمل طور پر کھو دی ھے کوئی بھی شخص یا فرد ان دونوں اداروں کی دل سے عزت و احترام کرنے کے لئے تیار ھی نہیں۔ مقننہ ریاستی نظام کا دوسرا مگر نہایت اھم ستون ھے اور یہ ستون تو مکمل طور پر تباہ و برباد ھو گیا ھے ۔
مقننہ کا نظام و انصرام سیاسی جماعتوں یا سیاسی نظام پر قائم و دائم تھا مگر قیام پاکستان کے فورا بعد سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ملکر سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام کو مفلوج کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ کئی ایک سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے سیاسی و جمھوری نظام کے خلاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب رھے تاھم اپریل 2010 کے تاریخی اٹھارویں ترمیم کے بعد جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے کچھ اندرونی اور بیرونی بہی خواہوں کے ساتھ ملکر کرکٹ سٹار عمران خان کی سرپرستی شروع کی تو ان سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان کی سرپرستی اور ایک غیر سیاسی کلچر کی پروان چڑھانے میں عدالت عظمی نے اھم کردار ادا کیا۔
افتخار چوھدری ، ثاقب نثار ،عمر عطا بندیال اور دیگر ججز نے ایک طرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے سیاسی اور جمھوری اداروں کو تباہ کر دیا جبکہ دوسری طرف عدلیہ کی آزادی کے نام پر کالے کوٹ کے نعرے پر ایک اور قوت کو تقویت بخش دی ۔ ایک طرف موقر اور مقبول سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی عمران خان اور انکی پیروی کرنے والوں کے ہاتھوں بے توقیری کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تو دوسری طرف مذموم مقاصد کے حصول کے لئے غیر مقبول افراد کو پارلیمنٹ میں براجمان کر دیا گیا اور ان غیر مقبول اور غیر سیاسی افراد کے ذریعے معزز پارلیمان کا وہ حشر کیا جا رھا ھے جسکی نظیر معزز اقوام یا ریاستوں کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اگر مملکت عزیز کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت ثابت ھو جائے گی کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار بن کر عدلیہ ھی نے سیاسی جماعتوں اور سیاسی و پارلیمانی نظام کو مفلوج کرنے میں اھم کردار ادا کیا ھے ۔ اس کردار سے اگر ایک طرف سیاسی و پارلیمانی نظام مفلوج ھوا ھے تو دوسری طرف سول انتظامی نظام بھی تتر بتر ھوا ھے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ مقتدرہ یا اشرافیہ بالفاظ دیگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی افادیت ، مقبولیت اور عزت و احترام کھو رھا ھے ۔ اس تمام تر افراتفری کا سہرا کسی اور کو نہیں بلکہ عدلیہ کے سر ھی کو جاتا ھے۔ پچھلے دو دہائیوں سے عدلیہ میں شامل بار اور بنچ کی مشترکہ کوشش ھے کہ ریاستی نظام کو مفلوج کرکے سب کچھ اپنے اختیار میں لے ۔ بار یعنی وکلاء کی بھی کوشش ھے کہ بنچ کی اقلیت سے استفادہ کرکے اسے بھی فتح کرے ۔ بیشتر وکلاء اب دفاع یا سائلین کے مقدمات کی پیروی کرنے کی بجائے لین دین پر زیادہ اکتفا کرنے کو ترجیح دے رھے ہیں۔
چند روز قبل ایک عالی مرتبت سیاسی رھنما نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ انہوں نے حکومتی عہدے پر ھوتے ھی ایک جج صاحب کو لاکھوں روپے دیکر خود کو قتل کے ایک مقدمے سے بری الذمہ قرار دیا( قتل کا یہ جھوٹا مقدمہ ایک نام نہاد مذھبی جماعت نے انکے خلاف درج کیا تھا ) یہ صرف خیبر پختونخوا کے ایک جج یا عدالت کا قصہ نہیں بلکہ ملک بھر میں ججز مبینہ طور پر بھاری رقوم کی رشوت لینے کے مطالبات کرتے رھتے ہیں اور وکلاء اب وکالت کی بجائے کمیشن کاروں کے فرائض سرانجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کار خیر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ذیلی تنظیموں سے منسلک وکلاء پیش پیش ہیں۔ ماضی میں صرف پولیس اور پٹواری رشوت لینے کے لیے مشہور تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ پٹواری قبضہ مافیا اور پولیس والوں میں سے کئی ایک اجرتی قاتل سمگلر وغیرہ بن گئے اب جو رہی سہی کسر ججز اور وکلاء پوری کر رھے ہیں۔ کیا اس ریاستی نظام کو برقرار رھنا جائز ھے جسمیں عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ کے تمام تر اداروں سے منسلک افراد بالخصوص بڑے بڑے عہدیدار مروجہ نظام کی بجائے پسند نا پسند کی بنیاد پر فیصلے کریں۔ اب بھی وقت ھے کہ مملکت عزیز کو بچایا جائے ۔ حق اور انصاف کی بنیاد پر فیصلے کرنے کو ترجیح دی جائے کرپشن اور بد عنوانی کو بے نقاب کیا جائے اور اس کے مرتکب افرادکو قرار واقعی سزا دی جائے ۔ ظلم اور نا انصافی پر مبنی ریاستی نظام دیر تک نہیں چل سکتا۔