مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے 

خیبر پختونخو کے باسیوں کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کی دھرتی نے کئی شعبہ ہائے زندگی میں نامور افراد پیدا کئے۔ چلیں آج فلم انڈسٹری جو کہ فنون لطیفہ کا اہم حصہ ہے‘کے بارے میں چند باتوں کاذکر اس کالم میں ہو جائے‘یہ 1900ء کے اوائل کی بات ہے نوشہرہ کے ایک گاؤں پیر پیائی میں گل حمید نامی ایک لڑکا جنم لیتا ہے جو عالم جوانی میں برصغیر کی خاموش فلموں silent movies کا سپر سٹار بنتا ہے‘ عمر اس سے وفا نہیں کرتی اور وہ عہد شباب میں دم توڑ دیتا ہے‘آج وہ امان گڑھ کے ایک چھوٹے سے قبرستان میں مٹی کی چادر اوڑھے لمبی نیند سو رہا ہے‘نہ اس کے نام پر کسی بھی حکومت نے کسی روڈ کا نام رکھا اور نہ  کسی نشریاتی ادارے کو توفیق ہوئی کہ وہ اس کی اداکاری پر ریسرچ کر کے کوئی دستاویزی فلم بنائے۔ گل حمید جیسا خوبرو فلم ہیرو برصغیر میں  کوئی  دوسرا نہ پیدا ہو سکا۔ پشاور شہر کے قصہ خوانی بازار کے ایک مربع میل کے اندر کئی ایسے فلمی اداکار پیدا ہوئے کہ جو بالی وڈ پر راج کرتے رہے۔پرتھوی راج کپور‘ان کے فرزند راج کپور‘شمی کپور‘ششی کپور  اور پھر ان کی ہی نسل سے تعلق رکھنے والے رشی کپور‘ رنبیر کپور‘ کرینہ کپور‘کرشمہ کپور نے بالی ووڈ کو کئی کامیاب فلمیں دیں‘ اس ضمن میں اگر  کنگ آف ٹریجڈی دلیپ کمار‘  ان کے بھائی ناصر خان ذکریا خان عرف جینت‘امجد خان‘ پریم  ناتھ‘انیل کپور اور ونود کھنہ اور شاہ رخ خان کا ذکر  نہ کیا جائے کہ جن کے آباء و اجداد کا تعلق بھی پشاور سے ہی تھا  تو زیادتی ہو گی۔ خیبر پختونخوا کے فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے حلقوں  کو خوشی ہوئی تھی جب چند سال قبل خیبر پختونخوا کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ متذکرہ بالا فلمی شخصیات میں سے پرتھوی راج کپور اور دلیپ کمار کے گھروں کو کہ جو قصہ خوانی بازار کے علاقے میں واقع ہیں‘نیشنل ہیریٹج ڈکلیئر کر کے ان کو میوزیم میں تبدیل کرنے جا رہی ہے‘ابتداء میں تو متعلقہ سرکاری حکام نے اس ضمن میں کافی سرگرمی کا مظاہرہ کیا‘ پر بعد میں یہ معاملہ ٹھپ ہو کر رہ گیا‘کیا اب یہ امید رکھی جائے کہ موجودہ حکومت اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائے گی؟۔